اگرآپ اسرائیل کے خیر خواہ ہیں تو آپ کو پریشان ہونا چاہیے، کیونکہ اسرائیل کو چھے محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے اور وہ یہ جنگ ہار رہا ہے۔ یہ بات میں، آصف محمود، نہیں لکھ رہا یہ بات نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی ہے اور اس تحریر کا مصنف کوئی عرب مسلمان نہیں بلکہ ایک یہودی ٹامس فریڈ مین ہے۔ یہ یہودی بھی کوئی شوقیہ قسم کا لکھاری نہیں کہ حقوق انسانی تخلص کرتا ہو اور برائے وزن بیت لکھ دیا ہو بلکہ یہ نیویارک ٹائمز کا مستقل کالم نگار ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ اسرائیل کا بہت بڑا مداح بھی ہے۔ یہ یروشلم میں نیویارک ٹائمز کا بیورو چیف بھی رہ چکا ہے۔ لبنان میں اسرائیلی حملوں کو اس نے لبنان کو سبق سکھانے کی جائز کوشش قرار دیا تھا۔ یہ فلسطینیوں پر اسرائیلی تشدد کا بھی حامی ہے اور اس بات پر نوم چومسکی جیسا آدمی بھی اسے تنقید کا نشانہ بنا چکا ہے۔ اس وقت بھی اس کی رائے یہ ہے کہ فلسطینیوں کو سبق سکھا دینا چاہیے اور اسرائیل کو اپنی بستیاں آگے فلسطینی علاقوں میں پھیلانی چاہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
پس منظر جان لینے کے بعد اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ٹامس فریڈ مین صاحب اپنے تازہ مضمون میں کیا لکھتے ہیں۔ اس کالم کا عنون ہے: چھے دنوں کی جنگ سے چھے محاذوں کی جنگ تک۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر آپ اسرائیل کے خیر خواہ ہیں اور اگر آپ اس کا خیال رکھتے ہیں تو آپ کو جان لینا چاہیے کہ اسرائیل یہ جنگ ہار رہا ہے۔ آپ کو اس جنگ کے بارے میں پریشان ہونا چاہیے اور اس سے زیادہ پریشان ہونا چاہیے جتنا آپ اسرائیل کے لیے 1967میں پریشان ہوئے تھے۔ کیونکہ وہ جنگ تو چھے دنوں کی جنگ تھی جب کہ یہ جنگ چھے محاذوں پر لڑی جانے والی جنگ ہے اور اسرائیل اکیلے یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔ ٹامس فریڈ مین نے اس سے پہلے بھی اسرائیل کی جنگوں کی رپورٹنگ کر رکھی ہے مگر اس بار کی جنگ پر وہ لکھتے ہیں کہ جتنی جنگوں کی بھی اب تک انہوں نے بطور صحافی رپورٹنگ کی ہے ان میں سے یہ والی جنگ سب سے پیچیدہ جنگ ہے اور ایک بات بہت واضح ہے کہ اسرائیل اکیلے یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پہلی بار ٹامس فریڈ مین کا خیال ہے کہ امریکا اور اسرائیل مل کر بھی یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ چنانچہ وہ تجویز کرتے ہیں کہ جیتنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا مل کو ایک عالمی اتحاد بنا لیں۔ یعنی ٹامس فریڈ مین کو ایک بار پھر لیگ آف نیشنز جیسے کسی ’’قانونی، اخلاقی‘‘ جواز کی ضرورت ہے۔ جس اتحاد کی جانب وہ اشارہ کر رہے ہیں وہ عسکری اتحاد نہیں ہے کیونکہ اس شعبے میں اسرائیل اور اس کی پشت پر کھڑے امریکا کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں۔ یہ عالمی اتحاد وہ کسی اور مقصد کے لیے چاہتے ہیں؟ وہ مقصد کیا ہے؟ اس مقصد کو جاننے کے لیے، پہلے یہ جاننا ہو گا کہ ٹامس فریڈ میں کے نزدیک وہ چیلنج کیا ہے جس کا مقابلہ نہ اسرائیل کے بس کی بات ہے نہ امریکا اور اسرائیل کے بس کی بات ہے اور جس کے لیے ان دونوں کو مل کر ایک عالمی اتحاد بنانے کی تجویز دی جا رہی ہے۔
یہ چیلنج بڑا دل چسپ ہے۔ یہ چیلنج مسلمان ممالک نہیں، یہ چیلنج مسلمان ملکوں کی افواج بھی نہیں۔ یہ چیلنج اقوام متحدہ یا او آئی سی بھی نہیں ہے۔ یہ چیلنج ہے سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا سے پھوٹتا وہ عمومی شعور جس نے عالمی سطح پر رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا اور باوجود اس بات کے کہ مغربی حکومتیں اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہیں، ٹامس فریڈ مین کہہ رہا ہے کہ سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر بڑھتے شعور نے اسرائیل کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ ٹامس فریڈ مین نے سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کو تیسرا محاذ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل نے غزہ پر ایک بڑا حملہ کیا ہوا ہے لیکن فلسطینی مزاحمت ابھی تک قدم جما کر کھڑی ہے اور یہی نہیں بلکہ وہ سمندر کے راستے اسرائیل کے جنوبی ساحلی شہر پر جوابی حملہ بھی کر چکی ہے۔ وہ چاہتی تھی اسرائیل مخالف محاذ بیک وقت کھل جائیں، اور وہ کھل چکے ہیں اور اسرائیل مخالف قوتیں اکٹھی ہو رہی ہیں۔ لیکن ایک چیلنج اور بھی ہے۔ اور وہ سوشل میڈیا ہے۔ یہ ایک یونیورسل نیٹ ورک ہے۔ یہاں ایک بیانیہ تشکیل پا رہا ہے اور یہ ڈیجیٹل نیریٹو یہ بتا رہا ہے کہ اچھا کون ہے اور برائی کی علامت کون ہے۔ فریڈ مین لکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس اور اسمارٹ فون کی مہربانی سے اب کچھ بھی خفیہ نہیں رہا اور ہم ابھرتی سرگوشیاں سن رہے ہیں، سوشل میڈیا کا غالب بیانیہ ایک حقیقی تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ مناسب ہو گا یہاں فریڈ مین کے اپنے الفاظ نقل کر دیے جائیں:
Thanks to smartphones and social networks, nothing is hidden and we can hear one and other whisper, the dominant narrative has real strategic value.
فریڈ مین لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف چوتھا محاذ فکری ہے۔ وہ اسے Intellectual struggle قرار دیتے ہیں۔ اور اس کی مثال پیش کرتے ہوئے وہ پریشانی کے عالم میں لکھتے ہیں کہ حتیٰ کہ امریکا کے کالج کیمپس میں بھی اسرائیل کو مورد الزام ٹھیرایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ فلسطینی تو اسرائیلی کالونیلزم کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ امریکی تعلیمی اداروں میں یہ رائے پیدا ہو رہی ہے کہ صرف غزہ اور مغربی کنارے پر ہی اسرائیل ناجائز قابض نہیں بلکہ یہ پوری ریاست ہی ’کالونیل انٹر پرائز‘ ہے۔ اس لیے اسرائیلی ریاست کو دفاع کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ غاصب ہے۔ یہ حق تو فلسطینیوں کو حاصل ہے جنہیں اسرائیل نے کالونی بنا لیا ہے۔ فریڈ مین کی پریشانی بتاتی ہے کہ میڈیا پر تو کنٹرول ہو سکتا ہے لیکن سوشل میڈیا ان کی گرفت سے نکل رہا ہے۔ مغرب کے معاشرے تک حقیقت پہنچ رہی ہے، خود یہودی اب نیویارک میں اسرائیل کی درندگی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کو نیو یارک ٹائمز کا اسرائیل نواز لکھاری اگر real strategic value. قرار دے رہا ہے تو یہ بے سبب نہیں۔ اس کی بڑی اہمیت ہے۔
تو صاحب اگر آپ کے پاس سوشل میڈیا ہے تو مظلوم کے حق میں لکھیے، انصاف کے لیے لکھیے، انٹر نیشنل لا کے مطابق فلسطینیوں کے جائز حقوق پر لکھیے، اگر محض سوشل میڈیا اکاؤنٹ بچانے کے لیے آپ گونگا شیطان بن جائیں گے یا اکاؤنٹ معطل ہونے کے ڈر سے اس المیے کے دوران بھی آپ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہیں گے تو آپ اس جرم کے تیسرے محاذ پر اسرائیلی جنگی جرائم کے سہولت کار ہیں۔ آپ گونگے شیطان ہیں۔ آپ سے نیویارک کے وہ یہودی اچھے ہیں جو ’ناٹ ان آور نیم‘ کی شرٹس پہن کر اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ (بشکریہ: 92نیوز)