کبھی عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے ہوا کرتے تھے۔ سیاسی مخالفین نے ان کا نام ہی لاڈلا رکھ دیا تھا اور لاڈلا کہہ کر ان کا تمسخر اُڑایا جاتا تھا۔ وہ بھی اس خطاب سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ اسی طرح لاڈلے بنے رہے تو اگلا الیکشن بھی وہی جیتیں گے اور اس کے بعد بھی کامیابی ان کے قدم چومے گی اور لگاتار کئی انتخابات میں کامیابی ان کے قدم چومتی رہے گی۔ وہ کم از کم بیس سال تک برسراقتدار رہنے کا عزم رکھتے تھے اور اپنے اس عزم کا اظہار بھی وہ برملا کیا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قیادت کے تسلسل ہی سے ملک پائیدار ترقی کرسکتا ہے۔ وہ اس سلسلے میں چین کی مثال دیتے تھے جہاں قیادت کا تسلسل برقرار ہے اور ملک ہر شعبے میں عدیم النظیر ترقی کررہا ہے، تاہم وہ یہ بھول گئے تھے کہ پاکستان میں جمہوریت کا نظام قائم ہے جس میں کسی قیادت کے تسلسل کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ عوام کسی بے لوث، دیانتدار اور ایثار پیشہ قیادت کو ہر بار منتخب تو کرسکتے ہیں لیکن اسے ہمیشہ کے لیے اقتدار کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ تبدیلی عوام کی فطرت میں شامل ہے۔ وہ خوب سے خوب ترکی تلاش میں رہتے ہیں اور یہی تلاش انہیں ترقی کی ضمانت دیتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ عوام کو اپنے بہتر نمائندے تلاش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ووٹ عوام ڈالتے ہیں لیکن نتائج کوئی اور طاقت مرتب کرتی ہے۔ یہ بات اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں آچکی ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف اپنے حلقے میں بُری طرح ہار رہے تھے، انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ کو فون کیا کہ میں ہار رہا ہوں میری مدد کیجیے۔ چناں چہ جب اس حلقے کا حتمی نتیجہ آیا تو خواجہ آصف کے سر پہ کامیابی کا تاج جگمگارہا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابی نتائج اسی طرح مرتب ہوتے ہیں جسے چاہا جتا دیا جسے چاہا ہرا دیا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے ہیں اس لیے مسلسل جیتتے رہیں گے اور ہار ان کے قریب بھی نہیں پھٹکے گی لیکن ایسی آندھی چلی کہ اگلے انتخابات آنے سے پہلے ہی نقشہ بدل گیا اور مقتدرہ نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان اور ان کی جماعت کو اقتدار سے نکال باہر کیا۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سب سے مضبوط اور طاقتور سیاسی جماعت ہے، اگرچہ آئین میں یہی لکھا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی لیکن آئین میں تو اور بھی بہت کچھ لکھا ہے اس میں انسانی حقوق، تحریر و تقریر کی آزادی اور چادر و چہار دیواری کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ جب ان باتوں پر عمل نہیں ہورہا تو اسٹیبلشمنٹ کو کیسے پابند کیا جاسکتا ہے جبکہ اس کے ہاتھ میں بندوق بھی ہے اور وہ طاقت سے اپنی بات منواسکتی ہے۔ چنانچہ وہ 1958ء سے سیاست میں حصہ لے رہی ہے، کبھی براہ راست، کبھی بالواسطہ اس کی براہ راست حکمرانی کا دورانیہ تیس پینتیس سال ہے، جب عوام کے تمام شہری حقوق معطل تھے اور وہ جبر کے ایک نظام میں سانس لے رہے تھے۔ بلاشبہ سیاسی جماعتوں نے جبر کے اس نظام کے خلاف جدوجہد کی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کیا جس کے نتیجے میں عام انتخابات کے ذریعے منتخب سول حکومتیں قائم ہوئیں اور جمہوری عمل کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سیاستدان ہی تھے جو اپنے سیاسی حریفوں کو زک پہنچانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کرتے رہے اور محض اپنے ذاتی مفاد اور ذاتی و گروہی اقتدار کے لیے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے رہے۔ ہم ماضی کی راکھ کریدنے کے بجائے حال کی بات کریں گے۔ 2018ء میں عمران خان کو برسراقتدار لانے کا منصوبہ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کا تھا لیکن انتخابات کے جمہوری عمل کے ذریعے اس منصوبے کو مکمل کیا گیا تھا۔ پھر جب اسٹیبلشمنٹ اور عمران حکومت کے درمیان اختلافات نے شدت اختیار کرلی اور منصوبہ سازوں نے عمران خان کو رخصت کرنے کا فیصلہ کرلیا تو عمران خان کی حریف سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے فوراً اپنا کندھا پیش کردیا، حالانکہ جمہوریت کا تقاضا یہ تھا کہ عمران خان کو آئین کے مطابق پانچ سال پورے کرنے دیے جاتے اور اگلے انتخابات میں مقابلہ کرکے اسے شکست دی جاتی لیکن سیاسی جماعتوں سے صبر نہ ہوسکا اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک اشارے پر انہوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کرکے عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ اب یہ جماعتیں انتخابات سے اس لیے گھبرا رہی ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت عروج پر پہنچی ہوئی ہے اور ان جماعتوں کو اپنی عبرتناک شکست سامنے نظر آرہی ہے۔
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو مسترد کرکے میاں نواز شریف کے سر پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا ہے۔ وہ ایک سزا یافتہ مجرم تھے لیکن عدالتوں نے کم و بیش ان کی تمام سزائیں معاف کردی ہیں اور انہیں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ پاکستان واپس بلالیا گیا ہے۔ مقتدرہ سمجھتی ہے کہ وہی عمران خان کا توڑ ثابت ہوسکتے ہیں لیکن لاہور میں ان کے پہلے جلسے ہی نے ان کی مقبولیت کا پول کھول دیا ہے۔ اس جلسے میں پورے ملک سے لوگوں کو اجرت پر لایا گیا، انہیں اجرت دی گئی یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے لیکن لوگ اس لالچ میں آئے کہ انہیں پیسے ملیں گے، البتہ بریانی سے ان کی تواضع ضرور کی گئی اور اتنی دیگیں پکائی گئیں کہ کھانے والے کم پڑ گئے۔ بظاہر ایک شاندار رش تھا لیکن اس میں لاہوریوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ انہوں نے عملاً جلسے کا بائیکاٹ کیا۔ بہرکیف اس بائیکاٹ سے کیا ہوتا ہے مگر پورے ملک کے عوام بھی نواز شریف کا بائیکاٹ کردیں تو بھی مقتدرہ انہیں وزیراعظم بنا کر رہے گی۔ کیونکہ اس کے نزدیک یہی واحد آپشن ہے، لیکن تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ سوال گردش کررہا ہے کہ کیا نواز شریف موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے نباہ کرپائیں گے۔ انہوں نے پاکستان آنے سے پہلے بھی سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا مطالبہ کردیا تھا وہ تو کہیے اسٹیبلشمنٹ کے اشارہ پر چھوٹے بھائی بھاگے بھاگے لندن گئے اور بڑے بھائی کو سمجھا بجھا کر اپنا بیانیہ بدلنے پر آمادہ کرلیا۔ اب اگرچہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے سابق جرنیلوں اور ججوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے لیکن انتقام کی آگ تو ان کے اندر بھڑک رہی ہے جو اقتدار کی آنچ سے شعلہ جوالہ بن سکتی ہے۔ پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ نواز شریف خطرات سے کھیلنے کے عادی ہیں اور ان کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی کبھی کسی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بنی، اب موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کی کیسے بن جائے گی۔ کہا جارہا ہے کہ یہ رومانس دو سال سے زیادہ طول نہیں کھینچ سکتا۔ پھر ایسی بھگدڑ مچے گی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔
اس ممکنہ بحران سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کرادیے جائیں۔ اسٹیبلشمنٹ کسی جماعت کی سرپرستی نہ کرے اور عوام کو آزادانہ اظہار رائے کا موقع دے۔ ان انتخابات میں ان لوگوں کو بھی حصہ لینے کی اجازت دی جائے جو 9 مئی کے واقعات میں ملوث بتائے جاتے ہیں اور بقول صدر عارف علوی ان کے معاملے میں عفوو درگزر کی پالیسی اپنائی جائے۔ ان کے ساتھ جتنی سختی ہوسکتی تھی ہوچکی ہے اب ایک وارننگ کے ساتھ ان کی جان بخشی کردی جائے کہ یہی قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ قومی سیاست میں مختلف تجربات کرتی چلی آرہی ہے۔ ایک دفعہ یہ تجربہ بھی کرکے دیکھ لے اِن شاء اللہ اس کے مثبت اثرات برآمد ہوں گے اور پاکستان اپنے ٹریک پر چڑھ جائے گا اور اس سے اسٹیبلشمنٹ کے وقار اور اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔