اسرائیل کا آئندہ کا لائحہ عمل

801

کسی کو چنگیز خان دیکھنے کی آرزو ہو تو وہ آج اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کی حکومت کے اراکین کو دیکھ لے۔ ان میں سے ہر ہر فرد چنگیز خان کا صحیح جانشین ہے۔ شقاوت اور سفاکی میں اپنے جد امجد سے کئی گنا آگے اس کی سفاکی کی انتہا دیکھیے کہ معصوم بچوں پر فاسفورس بم برسا رہا ہے۔ اسپتالوں پر کنکریٹ توڑنے والے بموں کی بارش کررہا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے غذا، پانی اور ایندھن بند کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کا امدادی ادارہ (unrwa) آنروا بتارہا ہے کہ اس کے اسکولوں پر ممنوع وائٹ فاسفورس بموں سے حملہ کیا گیا اور ہزاروں ٹن بارود برسایا گیا۔ چنگیز خان کو شرمانے والا اسرائیل بچوں کے اسکولوں، طبی مراکز، پناہ گزین کیمپوں اور رہائشی علاقوں پر فاسفورس بم برسا رہا ہے جہاں نہتے لوگ معصوم بچے اور عورتیں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل جو کچھ کررہا ہے امریکا کی حمایت سے کررہا ہے جو نہایت بھیانک کریہہ اور ظالمانہ رویہ ہے۔ غرور و تکبر کی زیادتی انہیں یہ سب کرکے مزید کرنے پر اُکسا رہی ہے۔ وہ ایسے درندہ صفت ہیں کہ انہیں انسان کہتے ہوئے کراہیت آتی ہے۔ یقینا وہ انسان نہیں انہیں جانور کہنا بھی مناسب نہیں کہ وہ اس سے بھی بدتر ہیں۔ جانوروں کے ہاں بھی قانون اور ضابطے ہوتے ہیں۔ اسرائیل ایک ایسی جعلی غاصب حکومت ہے جو اوّل روز سے ظلم، جارحیت اور قتل و غارت کے اصول پر بنی ہے، جو احسان فراموش اور اپنے محسن قوم کو قتل اور دربدر کرنے والی قوم ہے۔ اسرائیل کے قیام کی وجہ ’’بالفور اعلامیہ‘‘ ہے برطانیہ کی یہ تحریر جو ساٹھ ستر الفاظ پر مشتمل تھی۔ اس نے مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو آج تک خون بہانے کا سبب ہے۔ اس تحریر میں برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کی ریاست کے قیام کی حمایت کی پہلی جنگ عظیم 1917ء کے بعد جب فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ تھا۔ انہوں نے اس تحریر کے ذریعے صہیونیوں کو فلسطین کی زمین بخش دی۔ عرب اس کو برطانیہ کی دغا قرار دیتے ہیں اس تحریر میں فلسطین کے لوگ اتنے غیر اہم سمجھے گئے کہ انہیں ان کے نام سے نہیں ’’غیر یہودی آبادی‘‘ کا نام دیا گیا۔ ملک فلسطینیوں کا، آبادی ان کی لیکن مختصر یہودی آبادی کو فلسطین بخش دیا گیا۔ برطانیہ نے بالکل یہی کشمیر میں کیا مسلمانوں کے کشمیر کو ہندو حکومت کو دے کر ایک مستقل خونیں المیے کی بنیاد رکھ دی گئی جس کو یہ دونوں قومیں عشروں سے بھگت رہی ہیں۔ اب اسرائیل نے تقریباً پورے فلسطین پر قبضہ کرلیا ہے۔ سوائے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے۔ اب وہ غزہ کو بھی ٹکڑوں میں توڑ کر قبضہ کرنا چاہتا ہے اس کے لیے ہی اس کی منصوبہ بندی ہے۔ امریکا اس کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے۔ مسلمانوں کے یہودیوں پر جو احسانات ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رومیوں کی عیسائی حکومتوں نے ہمیشہ یہودیوں پر زندگی تنگ رکھی انہیں دربدر کیا ذلیل کرکے رکھا۔ یہودی جان و مال بچانے کے لیے ان علاقوں کا رُخ کرتے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ عیسائی رومی حکومت نے بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ کردیا تھا ان کی عبادت گاہیں تباہ کردیں تھیں۔ پندرہ ہجری 637ھ میں سیدنا عمرؓ کے ہاتھوں بیت المقدس بغیر خون بہائے فتح ہوا تو سیدنا عمرؓ نے یہودیوں کو بیت المقدس میں داخلے اور زیارت کی اجازت دی۔ اس سے قبل عیسائیوں نے یہودیوں کے بغض کے باعث اس چٹان کو جس کے اوپر ’’قبتہ الضحرہ‘‘ (Dome of Rock) بنا ہوا ہے اس کو کچرے سے ڈھک دیا تھا یعنی اس کو کچرا دان ہی بنادیا تھا۔ صرف اس بنا پر کہ یہودی اسے اپنی مقدس جگہ مانتے ہیں۔ امیر المومنین خلیفہ دوم سیدنا عمرؓ نے فتح کے بعد اپنے ہاتھ سے اسے صاف کیا۔ یہودیوں کو شہر میں آنے اور بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دی اور معاہدہ عمر کیا کہ یہودیوں عیسائیوں کو بھی یہاں داخلے اور عبادت کی اجازت ہوگی۔ پھر صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوئے تو مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ یہاں تک کہ گھوڑوں کی ٹانگیں خون میں ڈوب گئیں اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کیا فتح کرنے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں یہاں یہودی قلیل تعداد میں رہے لیکن عیسائیوں کے
ظلم و ستم اور ذلت و خواری والی زندگی سے بہت بہتر حالت میں رہے۔ انیسویں صدی میں یورپ میں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں میں پھر شدید نفرت کے جذبات ابھرے۔ ان حالات میں پھر یہودیوں نے عیسائیوں کے ظلم سے تنگ آکر نکل مکانی کی۔ جرمنی، مشرقی یورپ اور روس سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوئے ان کی بڑی تعداد نے امریکا، برطانیہ اور فلسطین کا رخ کیا۔ پہلی جنگ عظیم (1918-1914) میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تو برطانیہ کے ہاتھوں سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا اور برطانیہ کے وزیر خارجہ نے اعلان بالفور کے ذریعے یہودی ریاست قائم کرنے کا پروانہ یہودیوں کو تھمادیا۔ یہودیوں نے مہر لگا کر اپنے ہتھیاروں کی منافع بخش تجارت کو وسعت دیتا رہا ہے۔ اسرائیل اپنے قبضے کو ایک منافع بخش ادارے میں بدل رہا ہے۔ اسرائیل حکومت آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔ جبکہ اسرائیلی حکومت کے لیے غزہ گلے کی ہڈی ثابت ہوا ہے۔ مصر کے جنرل سیسی خدشہ ظاہ کررہے ہیں کہ اس جنگ کی تباہ کاری کے ذریعے اسرائیل فلسطینیوں کو مصر کے صحرائے سینا کی طرف ہجرت پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ ہے۔ بات یہ ہے کہ غزہ اور غزہ کے باشندے تو موجود ہیں اس قدر قتل و غارت گری کے بعد وہاں کون حکومت کرے گا؟ لہٰذا اس سب کے بعد اسرائیل ایک ایسی انتظامیہ چاہے گا جو غزہ کے لوگوں کو کنٹرول کرے اسے اس کے لیے امریکا، مصر اور سعودی عرب کی حمایت ملنا ممکن ہے۔ ’’الفتح‘‘ کے لوگ بھی اس میں شامل ہوں تو اور بہتر ہے۔ یوں آہستہ آہستہ اسرائیل کی حدود میں اضافہ ہوتا جائے گا اور گریٹر اسرائیل کا قیام آسان ہوگا۔ عرب ممالک جو خاموش ہیں ان کو مستقبل کا نقشہ سامنے رکھتے ہوئے غزہ کی بھرپور عملی حمایت کرنا چاہیے ورنہ آج غزہ ہے کل کوئی اور ہوگا۔