انسانی شخصیت کی تشکیل

658

ستیزہ کار رہا ہے اَزل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے، شرارِ بولہبی

علامہ اقبال نے چراغِ مصطفوی کو خیر کے لیے اور شرارِ بولہبی کو شر کے لیے بطورِ استعارہ استعمال کیا۔ انسانیت کے جدِّ اعلیٰ سیدنا آدمؑ کو ابتدائِ آفرینش ہی سے ابلیس سے واسطہ پڑا اور وہ سیدنا آدم وحوّا کے جنت سے نکالے جانے کا ظاہری سبب بنا، آدمیت وابلیسیت کی یہ کشمکش تاقیامت جاری رہے گی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو ضرور درجۂ کمال پر پہنچائے گا، خواہ کافروں کو ناگوار ہو‘‘۔ (التوبہ: 32)

دنیا میں انسانوں کے بنائے ہوئے نظام میں، انسانی شخصیت کی جو تشکیل ہوتی ہے، وہ قانونی ضوابط میں کس کر بنائی جاتی ہے، انہیں ایک قانونی نظام کا پابند اور ذمے دار شہری بنایا جاتاہے۔ قانون کی پابندی کرتے کرتے ایک وقت آتا ہے کہ وہ قانون اس کے مزاج اور عادت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس پر نظر رکھنے کے لیے مختلف طرح کی نگرانی کے انتظامات کیے جاتے ہیں، اُن میں سے ایک تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد ہر وقت چوکس رہتے ہیں اور نظر رکھتے ہیں اور آج کل جدید سائنسی ترقی کی وجہ سے CCTV کیمرے نصب کیے جاتے ہیں، زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک بہت سی چیزوں کو سیٹلائٹ میں نصب کیمروں سے بھی چیک کرتے ہیں اور پھر انہی آلات کی مدد سے قانون شکن عناصر کو تلاش کرکے قانون کی گرفت میں لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تمام ذرائع بھی انسان کی سو فی صد اصلاح میں ناکام رہتے ہیں، اسی لیے دنیا میں عدالتیں ہیں، جزا وسزا کا نظام ہے، مجرموں کے لیے جیلیں ہیں۔ لیکن اسلام ایک ایسے انسان کی تشکیل چاہتا ہے کہ جہاں قانون کی کوئی ظاہری یا خفیہ آنکھ اسے نہ دیکھ رہی ہو، وہاں بھی وہ اپنے آپ کو اللہ عالم الغیب والشہادۃ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ اپنے بندوں (کے حال ) کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ (المؤمن: 44) وہ نہ صرف ظاہر کو جانتا ہے بلکہ باطن کو بھی جانتا ہے اور کسی عمل، خواہ وہ بظاہر کتنا ہی پرکشش ہو، کے پیچھے کار فرما نیت کو بھی جانتا ہے اور آخرت کے اجر کا مدار اسی نیت پر ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وہ نگاہوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور اُن (رازوں) کو بھی جو تم اپنے سینوں میں چھپاتے ہو‘‘، (المؤمن: 19) اسی لیے ارشاد ہواُ: ’’اور انہیں فقط اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے، اس کی عبادت کریں‘‘، (البینۃ: 05) رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اعمال پر (اُخروی جزا) کا مدار نیتوں پر ہے، سو جس کی ہجرت (خالصاً) اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو، تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہی قرار پائے گی اور جس کی ہجرت کسی دنیوی مقصد کے حصول کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کے لیے ہو، تو وہ انہی مقاصد کے لیے قرار پائے گی‘‘، (بخاری) ایسی ہجرت کا آخرت میں کوئی اجر نہیں ہوگا اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’بے شک اللہ تمہارے جسموں اور (ظاہری) صورتوںکو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوںکو دیکھتا ہے‘‘، (بخاری) (راوی بیان کرتے ہیں:) یہ کہتے ہوئے حضور نے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک کان، آنکھ اور دل، ان سب کے بارے میں آخرت میں پوچھا جائے گا‘‘۔ (اسراء: 36) یعنی اللہ تعالیٰ نے سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی جو صلاحیتیں انسان کو عطا فرمائی ہیں، ان کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی کہ اُس نے ان صلاحیتوں کو اُس کی اطاعت میں استعمال کیا یا نافرمانی میں۔

الغرض اسلام ایک اخلاقی شخصیت کی تشکیل چاہتا ہے کہ جب اللہ کی زمین پر کوئی بھی نظر اسے نہ دیکھ رہی ہو، تب بھی وہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جوابدہ سمجھے، اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی طرف قدم نہ بڑھائے اور جو شخص اللہ کے خوف سے معصیت کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو روک لے، اُسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی سایۂ رحمت میں پناہ عطا فرمائے گا، جبکہ اس کے سایۂ رحمت کے سوا اور کوئی جائے پناہ نہ ہو گی، ان میں سے ایک وہ شخص ہے کہ جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اپنی خطاؤں پر نادم ہوکر اُس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے اور ایک وہ شخص ہے کہ جسے کسی منصب وجمال والی عورت نے دعوتِ گناہ دی (اور جب نفسانی شہوت کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہ رہی)، تو (اس نے یہ کہہ کر قدم روک لیے اور) کہا: میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘‘۔ (نسائی)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے بنی آدم! کہیں شیطان تم کو فتنے میں مبتلا نہ کردے، جس طرح وہ تمہارے ماں باپ کے جنت سے نکالے جانے اور ان کا لباس اتروانے کا سبب بنا تھا تاکہ وہ انہیں اُن کی شرمگاہیں دکھائے، بے شک وہ (شیطان) اور اُس کے کارندے تمہیں (ایسی جگہ سے) دیکھتے ہیں، جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ پاتے‘‘۔ (الاعراف: 27) اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کے لیے جنات اور شیاطین میں ایسی قوّتِ ادراک پیدا کی ہے، جس کے سبب وہ انسانوں کو دیکھ لیتے ہیں اور عام انسانوں میں ایسی قوّت نہیں ہے کہ وہ جنات اور شیاطین کو دیکھ سکیں، کیونکہ جنات اور شیاطین کے جسم لطیف ہیں، اس لیے ان کی شعاعِ بصر بہت قوی ہے، وہ لطیف (Thin) اور کثیف (Thick) دونوں اجسام کو دیکھ لیتی ہے، جبکہ عام انسان اپنے اجسام کے کثیف ہونے کی وجہ سے لطیف اجسام کو نہیں دیکھ سکتے، البتہ انبیائؑ بطورِ معجزہ اور اولیائِ کرام بطورِ کرامت جنات اور شیاطین کو دیکھ لیتے ہیں۔ سیدناِ سلیمانؑ کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور بعض جنات کوان کے تابع کردیا تھا، جو ان کے سامنے ان کے رب کے حکم سے کام کرتے تھے اور انہیں بتا دیا کہ اُن میں سے جو ہمارے حکم کی نافرمانی کرے گا، ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب پہنچائیںگے، وہ اُن کے حسبِ منشاء اُن کے لیے اونچے قلعے، مجسمے اور حوض کی مانند بڑے بڑے ٹب اور (چولہوں پر) جمی ہوئی بڑی بڑی دیگیں بناتے تھے‘‘۔ (سباء: 13-14) آج کل کی جو عالَمی قوتیں ہیں، انہوں نے مادّی اسباب سے اپنے لیے مخفی آنکھیں بنا لی ہیں۔

حدیثِ پاک میں ہے: ’’نبیؐ کے پاس ام المؤمنین صَفِیّہ بنت حُیَیّ مسجد میں ملاقات کے لیے آئیں، جب وہ لوٹیں تو رسول اللہؐ بھی ان کے ساتھ چل پڑے، آپؐ کے پاس سے دو انصاری شخص گزرے، آپ نے ان دونوں کو بلایا اور فرمایا: یہ صَفِیّہ (یعنی میری بیوی) ہیں، ان دونوں نے کہاُ: سبحان اللہ!، آپ نے فرمایا: شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے‘‘۔ (بخاری) اس سے معلوم ہواُ: اگرچہ نبیؐ معصوم ہیں، مگر اس کے باوجود آپ نے ممکنہ بدگمانی کے ازالے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا، ایک روایت میں ہے: ’’ایسے مواقع سے بچو، جہاں لوگوں کی بدگمانی اور تہمت کا امکان ہو‘‘۔ الخرائطی نے مرفوعاً روایت کیا ہے: ’’جواپنے بارے میں بدگمانیوں کے مواقع پیدا کرے گا، وہ (انجامِ کار) لوگوں کی تہمت کا ہدف بنے گا، پھر اسے بدگمانی کرنے والوں کو ملامت نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ (کشف الخفاء ومزیل الالباس) ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: ’’سیدنا جابرؓ بیان کرتے ہیںُ: رسول اللہؐ نے فرمایا: جن عورتوںکے شوہر موجود نہ ہوں، ان کے پاس نہ جاؤ، کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح سرایت کرتاہے‘‘، (ترمذی) اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ’’اور جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو، اس کی ٹوہ میں نہ لگو، بے شک کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا‘‘۔ (بنی اسرائیل: 36)

الغرض کامل مومن وہی ہے جو اپنے آپ کو اُس اللہ کے حضور جوابدہ سمجھے، جس سے ظاہر وباطن کا کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ہے۔ انسانی اعمال پر تو اس کی نظر ہے ہی، ان اعمال کے پیچھے جو نیت کارفرما ہے اور جو اس کے باطنی اور قلبی محرکات ہیں، وہ اُن سے بھی خوب آگاہ ہے۔ چنانچہ ایک بار ایک بادشاہ اپنی ریاست میں سیرو سیاحت کرتے ہوئے ایک باغ میں گیا تو اسے باغ کے مالی کی بیوی کے حسن وجمال نے فریفتہ کردیا۔ اس نے اس کے شوہر کو دور دراز بھیجا، اس کی بیوی کو اپنے حرم میں بلایا اور اُس کو حکم دیا: سارے دروازے، کھڑکیاں، روشن دان بندکردو، اس نے حکم کی تعمیل کی۔ بادشاہ نے اُس سے پوچھاُ: سب روزن بند کردیے، اس نے کہاُ: سوائے ایک کے سب بند کردیے، بادشاہ نے کہا: ’’اسے بھی بند کردو‘‘، اس نے کہا: ’’وہ میرے بس میں نہیں ہے‘‘، بادشاہ نے کہا: ’’بتاؤ میں بند کردیتا ہوں‘‘، اُس نے کہا: ’’آپ بھی نہیں کرسکتے‘‘، کیونکہ یہ وہ روزن ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان ہے، اس سے بادشاہ کی دل کی آنکھ جو شہوت کے غلبے سے بند ہوچکی تھی، کھل گئی، اس نے فوراً توبہ کی اور گناہ میں مبتلا ہونے بچ گیا۔

رسول اللہؐ نے ایسا انسانی معاشرہ تشکیل دیا تھا، جن کے دل خَشیتِ الٰہی سے معمور تھے، وہ ہر وقت اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ سمجھتے تھے، اگر بشری تقاضے سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا تو جب تک شرعی طریقے سے اس کا ازالہ نہ ہوجاتا، انہیں چین نہ آتا، ایک حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں: میں نبیؐ کے پاس تھا، ایک شخص آیا اور عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے (مُوجبِ) حدّ گناہ کا ارتکاب کیا ہے، مجھ پر حدِّشرعی قائم فرمائیے، نبیؐ نے اس سے کچھ نہ پوچھا، راوی بیان کرتے ہیں: (اس دوران) نماز کھڑی ہونے کا وقت آگیا، نبیؐ نے نماز پڑھائی، جب آپؐ نماز ادا کرچکے تو وہ شخص (پھر) کھڑا ہوا اور کہا: یارسول اللہ! میں نے (مُوجبِ) حدّگناہ کا ارتکاب کیا ہے، تو مجھ پر اللہ کے قانون کو جاری فرمائیے، آپؐ نے فرمایا: کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی، اس نے عرض کیا: جی ہاں! (پڑھی ہے)، آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہ یا تمہاری حد کو بخش دیا ہے‘‘، (بخاری) بخاری میں اس کی مزید وضاحت ہے: رسول اللہؐ نے سورۂ ہود کی آیت:114سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا: ’’ نیکیاں گناہوں کے اثر کو زائل کردیتی ہیں‘‘۔