انتخابات اور عدالت عظمیٰ کا حکم

1373

90 دن میں انتخابات کروانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ ملک بھر میں عام انتخابات 11 فروری کو کروائے جائیں گے، جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ صدر مملکت سے مشاورت کے بعد عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔ یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ میں پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات کرانے کی تاریخ کے لیے درخواستیں دائر کی تھیں۔ قومی اسمبلی کی مدت کے خاتمے کے 60 دن کے اندر نئے انتخابات کے لیے تیار رہنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، لیکن انتخابات کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کی خاطر سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے مدت ختم ہونے سے چند دن قبل قومی اسمبلی تحلیل کردی اور حکومت کو 60 دن کے بجائے 90 دن کی مہلت مل گئی۔ اس سے قبل پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی اسمبلیوں کو وزرائے اعلیٰ نے تحلیل کردیا تا کہ قبل ازوقت انتخابات کے لیے حکومت پر دبائو ڈالا جاسکے، لیکن دونوں صوبوں کے گورنروں نے انتخابات کی تاریخ دینے سے انکار کردیا اور دلیل یہ دی کہ چونکہ انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی ہے۔ اس لیے وہ انتخابات کی تاریخ نہیں دیں گے۔ پنجاب اور کے پی کے میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا تنازع بھی عدالت عظمیٰ میں گیا تھا، عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ 90 دن کے اندر انتخابات کرانا آئین کا بنیادی تقاضا ہے، لیکن عدالت عظمیٰ اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کراسکتی، اس کے بعد قومی اسمبلی اور باقی دو صوبائی اسمبلیوں کی مدت بھی ختم ہوگئی، اس کے باوجود عام انتخابات سے گریز کیا گیا۔ یہ طرزِ عمل غیر متوقع نہیں تھا۔ اسی مقصد کے لیے سابق حکومت نے اپنی مدت ختم ہونے سے چند دن پہلے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرکے نئی متنازع مردم شماری کو منظور کرکے حکم نامہ جاری کردیا گیا۔ حکومت کا یہ فیصلہ بھی متنازع تھا اس لیے کہ مردم شماری کے نتائج کے بارے میں بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔ مردم شماری کے نتائج پر سندھ کی صوبائی حکومت کو بھی اعتراضات تھے لیکن مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کو منظور کرنے کی تجویز پر دستخط کردیے۔ اس کے علاوہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے سیاسی اور قانونی جواز پر بھی اعتراضات کیے گئے۔ بنیادی اعتراض یہ تھا کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نگراں حکومتیں قائم ہیں جن کے وزرائے اعلیٰ کو مشترکہ مفادات کونسل میں بنیادی پالیسی امور کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ اچانک متنازع مردم شماری کے نتائج کو اس لیے منظور کیا گیا تا کہ انتخابات کے التوا کے لیے بہانہ تلاش کیا جاسکے اور یہی ہوا۔ الیکشن کمیشن نے یہ اعلان کردیا کہ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل ضروری ہے، اس بہانے الیکشن کمیشن اور حکومت انتخابات سے گریز کرتی رہی ہے۔ لوگوں کے سامنے یہ حقیقت کھلی آنکھوں سے نظر آرہی ہے کہ طاقتور طبقات کا ابھی تک انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس لیے انتخابات کے بارے میں دھند سیاسی منظر پر چھائی رہی۔ اس سلسلے میں حکومت اور الیکشن کمیشن نے یہ بحث بھی چھیڑ دی کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کے پاس ہے۔ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ آئین کے مطابق وقت پر انتخابات کرانے اور تاریخ اور شیڈول طے کرنے کے لیے مشاورت کریں لیکن الیکشن کمیشن اور وزارت قانون نے واضح طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر مملکت کے پاس نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے، الیکشن کمیشن نے صدر سے ملاقات کرنے سے بھی صاف انکار کردیا۔ اس تناظر میں عدالت عظمیٰ میں دو سیاسی جماعتوں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواستوں کی سماعت کا انتظار تھا۔ اس مقدمے کی اہمیت اس تناظر میں اہمیت اختیار کر گئی تھی سیاسی امور میں غیر جمہوری قوتوں یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے سیاست کو بہت آلودہ کردیا ہے۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی جگہ اصل حکمرانوں کا کہاقانون بنادیا گیا ہے۔ سیاسی تقسیم نے عدلیہ کو بھی تقسیم کردیا ۔ سابق چیف جسٹس اور موجودہ چیف جسٹس دو گروہوں کے نمائندے نظر آئے، سیاسی جماعتیں بھی اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ججوں کے بارے میں رائے دیتے ہوئے نظر آئیں، اس حوالے سے آئین کے تحت 90 دن میں انتخابات کے بارے میں عدالت عظمیٰ اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کراسکی۔ پاکستان کی سیاست آمرانہ طاقتوں اور مسلم عوام کے نمائندہ قیادت کی کش مکش کی داستان پر مشتمل ہے۔ اس کش مکش میں سیاسی اور نمائندہ قوتیں عوام کی نمائندگی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس لیے انتخابات اور جمہوری عمل اور نمائندہ ادارے آمرانہ قوتوں کی مزاحمت کرنے میں ناکام رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان اور آزادی ہند کے بعد اقتدار سامراج کے نمائندہ اداروں نے امور مملکت پر اپنی گرفت برقرار رکھی۔ ایک سازشی عمل جاری رہا جس میں فوجی بیوروکریسی، سول بیوروکریسی اور پولیس کی طاقت ہی اصل مقتدر رہی۔ واضح رہے کہ پاکستان سیاسی تاریخ میں الٹا سفر قائداعظم محمد علی جناح کی پراسرار موت اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہوا۔ اس سازشی شیطانی عمل کے آغاز کے ساتھ برطانوی بیوروکریسی کے نمائندے گورنر جنرل غلام محمد نے میجر جنرل اسکندر مرزا اور فوجی سربراہ جنرل ایوب کی مدد سے پہلی دستور ساز اسمبلی تحلیل کردی۔ یہ کام گورنر جنرل نے تاج برطانیہ کی حیثیت سے کیا۔ جبکہ آزادی ہند اور دو مملکتوں کے قیام کے حکم نامے کے مطابق دستور ساز اسمبلی دستور بنالے گی تو اسے اقتدار اعلیٰ حاصل ہوجائے گا۔ لیکن تاج برطانیہ کے غلاموں نے اس ادارے ہی کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیا۔ جسے آزادی اور اقتدار اعلیٰ کا نمائندہ بننا تھا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی قرار داد مقاصد کی صورت میں نظام حکومت اور امور مملکت کے بارے میں اپنے عقیدے اور ایمان کا اعلان کرچکی تھی کہ اقتدار اعلیٰ اللہ ربّ کائنات کے پاس ہے اور مسلم عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلائیں گے۔ لیکن سامراج کی پشت پر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آئین ہی کو کھلواڑ بنالیا گیا۔ اب بھی منتخب نمائندہ اداروں کے بجائے سول اور فوجی بیوروکریسی کو فیصلہ کن بالادستی حاصل ہے۔ اہل پاکستان کو یہ تو معلوم ہوگیا ہے کہ سیاسی امور میں سول بالادستی کا قیام قومی آزادی اور خودمختاری کے لیے کتنا ضروری ہے لیکن عملی حکومت جابروں کے استبدادی ہاتھوں میں ہے۔ سیاسی مزاحمت انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہے۔ اس پس منظر میں عوامی جدوجہد اور قومی آزادی برقرار رکھنے کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ آمرانہ اقتدار کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے مقتدر طاقتوں کو انتخابات کرانے پر مجبور کردیا گیا تو حالات میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے لیکن ہوس اقتدار کے مارے بے اصول سیاست دانوں نے انتخابی عمل اور جمہوری طرزِ حکمرانی کو ڈیل اور ڈھیل کے کھیل میں بدل دیا ہے۔ اس موقع پر سوال یہ ہے کہ کیا مقتدر اداروں نے جس سیاست کی بساط بچھانے کا فیصلہ کیا ہے اس کے راستے کی رکاوٹیں ختم ہوگئی ہیں؟ کیا عدالت عظمیٰ نے بھی انتخاب کے معاملے میں مصالحت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟