اہلِ دین کی آفات (آخری حصہ)

854

امام اعظم ابوحنیفہ کے جلیل القدر شاگردوں امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم اور امام محمد بن حسن شیبانی کی امام اعظم سے بعض مسائل میں اختلافی آراء منقول ہیں، لیکن اس سے اپنے امام اور استاذ گرامی کی تعظیم میں کوئی فرق نہ آیا، بلکہ امام اعظم نے خود اپنے شاگردوں کو یہ حق دے رکھا تھا کہ وہ قائل کی ذات کو نہ دیکھیں، دلیل کی قوت کو دیکھیں۔

صحابۂ کرام جو مکتَبِ نُبوّت سے تربیت یافتہ تھے، وہ دین کے مسائل کا جواب دینے میں کس قدر محتاط تھے، مندرجہ ذیل حدیث سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

’’سیدنا عبداللہ بن مسعود سے سوال ہوا: ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا، ابھی نہ اُس سے ازدواجی تعلق قائم ہوا تھا اور نہ مہر مقررہوا تھا کہ اس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا، سیدنا عبداللہ بن مسعود نے فوراً جواب نہ دیا، بلکہ توقف کیا اور وہ لوگ ایک مہینے تک یا کئی بار اُن کے پاس جواب معلوم کرنے کے لیے آتے رہے، تو (طویل سوچ بچار کے بعد) انہوں نے جواب دیا: میں کہتا ہوں: اُسے دوسری عورتوں کی طرح پورا مہر ملے گا نہ کم نہ زیادہ، اُسے شوہر کی میراث بھی ملے گی اور اُس پر عدتِ وفات بھی ہوگی، ( پھر انہوں نے کہا:) اگر یہ جواب درست ہے تو یہ اللہ کی توفیق سے ہے اور اگر (بالفرض) یہ جواب غلط ہے تو میری طرف سے ہے اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے بَری ہیں، اس موقع پر اشجع کے کچھ لوگ اٹھے، اُن میں جَرّاح اور ابوسنان بھی تھے، انہوں نے کہا: اے ابن مسعود! ہم گواہی دیتے ہیں: ’’بِرْوَع بِنْتِ وَاشِق‘‘اور ان کے شوہر ’’ہِلَال بِن مُرَّۃ اَشْجَعِی‘‘ کے ساتھ یہی صورتِ حال پیش آئی تھی، تو رسول اللہؐ نے مسئلہ اسی طرح بتایا تھا، جس طرح آپ نے بتایا ہے، راوی بیان کرتے ہیں: یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن مسعود بہت خوش ہوئے کہ اُن کا فیصلہ رسول اللہؐ کے فیصلے کے موافق ہوا‘‘۔ (ابودائود) اس سے معلوم ہوا: صحابۂ کرام کے دل میں اللہ کا کتنا خوف تھا اور وہ شریعت کا مسئلہ بتانے میں کس قدر محتاط تھے، اگر انہوں نے رسول اللہ ؐ سے براہِ راست ایسا مسئلہ نہ سنا ہوتا تو پوری سوچ بچار کے بعد اپنے اجتہاد سے جواب دیتے اور یہ واضح کردیتے کہ اگر یہ جواب درست ہے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہے اور اگر خدانخواستہ خطا ہے، تو اس کی ذمے داری اُن پر عائد ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم ؐ اس سے بَری ہیں۔

نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو، جس کا براہِ راست کتاب وسنّت میں جواب دستیاب نہ ہو اور ائمۂ سابقین سے بھی کوئی روایت ثابت نہ ہو تو فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے، بلکہ بحث و تمحیص، غور و خوض، تلاش و جستجو اور عمیق فکر و نظر کے بعد فتویٰ دیا جائے، نیز اپنے ہم عصر اہلِ فتویٰ سے بھی مشاورت کرلی جائے، اُس کے بعد خطا کے امکان کو ردّ نہ کیا جائے، کیونکہ خطا سے مُبَرّا صرف شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہی ہوسکتا ہے۔ اہلِ فتویٰ صحابۂ کرام، تابعین عظام اور ائمۂ مجتہدین کا یہی طرز عمل تھا کہ پوری دل جمعی کے ساتھ کتاب و سنت میں مسئلہ تلاش کرتے، خلفائے راشدین کے اقوال کا پتا چلانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرتے، مکمل جد و جہد اور اجتہاد کے بعد جب اطمینان ہو جاتا تو فتویٰ دیتے تھے، الغرض اسلاف کا فتویٰ دینے کا یہی شِعار تھا۔ ایسے مسائل جو کتاب وسنّت میں منصوص نہیں ہیں اور خلفائے راشدین وصحابۂ کرام سے منقول نہیں ہیں، نیزتمام تر ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے راجح دلائل کے ساتھ اپنے معاصرین یا سابقین سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، کیونکہ انبیائے کرامؑ کے علاوہ خطا سے معصوم کوئی بھی نہیں ہے، امکانِ خطا کا یہ معنی نہیں کہ ہر ایک سے ہمیشہ خطا واقع ہوتی ہے، ہمارے اکابر کے اکثر اجتہادی مسائل صائب آراء پر مشتمل ہیں اور آج بھی ہم ان کی تقلید کرتے ہیں۔

بعض اوقات جب ایک مسئلے میں دو رائے آجائیں، تو ضروری نہیں کہ ایک صواب اور دوسری خطا ہو، بلکہ بعض اوقات دونوں آراء صحت پر مبنی ہوتی ہیں، ایک راجح اور دوسری مرجوح ہوتی ہے یا مجتہد اپنی رائے میں ایک کو صائب سمجھتا ہے، اُس میں کسی ذاتیات یا عِناد کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

تمسخر واستہزا اور مخالف کی بے ادبی کرنا جہالت کی علامت ہے، چنانچہ سیدنا موسیٰؑ سے جب قوم نے ایک مقتول کے قاتل کو معلوم کرنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے فرمایا: ایک گائے ذبح کر کے اس کا گوشت مقتول کے بدن کے ساتھ مَس کرو، وہ زندہ ہوکر اپنے قاتل کی بابت بتادے گا، اس پر بنی اسرائیل نے کہا: ’’کیا آپ ہم سے مذاق کررہے ہیں‘‘، یعنی گائے کے ذبح کرنے کا مقتول کے زندہ کیے جانے سے کیا تعلق ہے، سیدنا موسیٰؑ نے فرمایا: ’’میںاس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ نادانوں میں شامل ہو جائوں‘‘، پس تمسخر کرنا جاہلوں کا کام ہے، علماء کے لیے مناسب نہیں کہ تمسخر کریں، کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے۔ پس علماء کے درمیان دلائل کی بنیاد پر رائے کا اختلاف یا کسی اور عالم سے مسلکی اختلاف اور چیز ہے اور بے ادبی اور چیز ہے، بے ادبی کسی حالت میں جائز نہیںہے، دلائل کی بنیاد پر اختلاف جائز ہے۔

اختلاف کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو، اس میں سنجیدگی، متانت اور وقار چاہیے۔ لڑائی، جھگڑا، گالی گلوچ اور طعنہ زنی سے بچنا لازمی ہے، یہاں تک کہ کفر و شرک اور بدعت وضلالت کے حامیوں سے اعلان برأت تو ضروری ہے، لیکن ان کے ساتھ بھی بحث و مباحثے میں تندوتیز اور تکلیف دہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا لازمی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان کے ساتھ اَحسن طریقے سے بحث کرو‘‘۔ (النحل: 125) کیونکہ مقصد حق کی تفہیم اور تبلیغ ہے، اس کے لیے نرم خوئی، دل جوئی، شفقت اور ہمدردی، خوبصورت انداز بیان اور مشفقانہ لب ولہجہ ہی مفید ہے۔ درشتی اور تلخی، بداخلاقی اور سخن پروری اس راہ میں نہایت مضر اور بے نتیجہ ہے، دل آزار اور جگر خراش باتوں کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون جیسے سرکش اور گمراہ کے پاس سیدنا موسیٰ اور سیدنا ہارونؑ کو دعوتِ حق کے لیے بھیجتے ہوئے حکم فرمایا: ’’تم دونوں فرعون کے پاس جائو، کیونکہ وہ سرکش ہوگیا ہے، پس نرم لہجے میں بات کرو، شاید وہ نصیحت قبول کرلے اور اُس کے دل میں خَشیتِ الٰہی پیدا ہوجائے‘‘۔ (طہ: 43-44) فرعون کے متعلق اللہ تعالیٰ کو تو یقینی علم تھا کہ وہ راہ راست پر نہیں آئے گا، اس کے باوجود معصوم انبیاء کو تلقین کی جارہی ہے کہ اس سے نرمی سے بات کرو، ظاہر ہے کہ ہم میں سے کوئی پیغمبر سے بڑھ کر ہمدرد اور مصلح نہیں ہوسکتا اور نہ اسے معلوم ہے کہ اس کا مخاطَب ہر صورت میں باطل پر قائم رہے گا، تو عام حالات میں سخت اور دل آزار گفتگو کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے۔

جنگ جَمَل میں سیدنا طلحہ، سیدنا علی کے مقابل لشکر میں شامل تھے، وہ اسی جنگ میں شہید ہوئے، ان کے صاحبزادے سیدنا عمران جب سیدنا علی کے پاس آئے تو اپنے قریب بٹھاکر فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اور تمہارے والد کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جن کے بارے میں قرآن میں ہے: ’’اور ان کے دلوں میں جو رنجشیں ہوں گی، ہم ان سب کو نکال دیں گے، (وہ) مَسندوں پر بھائیوں کی طرح آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے‘‘، (الحجر: 47) اس محفل میں موجود دو شخص کہنے لگے: یہ دیکھو! کل تک تو آپس میں لڑتے رہے اور جنت میں جاکر بھائی بن جائیں گے،

کہا: انصاف پر مبنی اللہ کا فیصلہ ایسا ہوسکتا ہے، یہ سن کر سیدنا علی ناراض ہوگئے اور کہنے لگے: تم دونوں میرے ساتھ رہنے کے لائق نہیں ہو، یہاں سے اٹھو اور کہیں اور چلے جائو، اگر میں اور طلحہ ایسے نہیں ہوں گے تو پھر کون ہوگا‘‘۔ (ادب الخلاف)

حج کے موقع پر رسول اللہؐ چار رکعت والی نماز کو مسافر ہونے کی وجہ سے دور کعت پڑھا کرتے تھے، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق کا بھی یہی طریقہ تھا، خلافت کے بعد کچھ سال تک سیدنا عثمان غنی بھی اسی پر عمل کرتے رہے، لیکن پھر انہوں نے چار رکعت پڑھنا شروع کردیا، صحابہ کرام میں سے بہت سے صحابہ نے اس سلسلے میں ان پر تنقید کی، ان میں سرفہرست سیدنا عبداللہ بن مسعود تھے، لیکن جب نماز شروع ہوئی تو وہ بھی شامل ہوگئے اور چار رکعت ادا کی، اُن سے اس کی بابت سوال ہوا توفرمایا: ’’لڑنا جھگڑنا بری بات ہے‘‘، (مصنف عبدالرزاق) یعنی اختلاف اور تنقید اپنی جگہ، لیکن اسے افتراق اور انتشار کا ذریعہ بنا لینا اور دوسروں پر اپنی رائے مسلّط کرنا درست نہیں ہے۔

سیدنا زید بن ثابت اور سیدنا عبداللہ بن عباس کے درمیان ایک مسئلے میں شدید اختلاف تھا، اس کے باوجود سیدنا عبداللہ نے ایک دن سیدنا زید کو سواری پر دیکھا تو اس کی لگام پکڑکر چلنے لگے، سیدنا زید نے کہا: اے عم زاد رسول! اسے چھوڑ دیجیے، انہوں نے کہا: نہیں! ہمیں اہل علم اور بڑوں کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، سیدنا زید نے کہا: اچھا اپنا ہاتھ دکھلائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو سیدنا زید نے اسے بوسہ دیا اور کہا: ہمیں اہلِ بیت کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جب ان کا انتقال ہوا تو سیدنا ابن عباس نے فرمایا: علم اسی طرح اٹھتا جائے گا، آج علم کا ایک بڑا حصہ زمین میں دفن ہوگیا‘‘۔ (ادب الخلاف)

سیدنا امیرِ معاویہ سے ایک مسئلہ دریافت کیا گیا: ’’ایک شخص نے کسی کو اپنی بیوی سے بدکاری کرتے دیکھا اور غصے سے بے قابو ہوکر اُسے قتل کردیا‘‘، سیدنا معاویہ کو یہ مسئلہ حل کرنے میں مشکل پیش آئی، کیونکہ یہ مسئلہ ان کے سامنے پہلی بار آیا تھا، قاتل کی سزا اگرچہ قصاص ہے، لیکن یہ قتل جن حالات میں صادر ہوا، اُسے نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پس اُنہوں نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری کو خط لکھا کہ وہ سیدنا علی سے اس مسئلے کی بابت دریافت کریں، پس سیدنا علی نے اُنہیں اس کا جواب عنایت فرمایا‘‘، (موطاامام مالک) یہ سب کو معلوم ہے کہ سیدنا علی اور سیدنا امیرمعاویہؓ کے مابین اختلافات تھے اور جنگیں بھی ہوئیں، لیکن دینی مسئلے میں سیدنا علیؓ کی طرف رجوع کرنے میں انہوں نے کوئی عار محسوس نہیں کی اور سیدنا علیؓ کو اپنے سے بڑا عالم سمجھ کر اُن کی طرف رجوع کیا اور اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے میں کوئی تردّد نہیں کیا۔ پس کیا ہم بھی اپنے کسی مخالف کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔