تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن

986

کتنے دکھ، اذیت اور کرب کی بات ہے کہ ہم مسلمان ہونے، پوری دنیا میں 2 ارب ہونے اور کرۂ عرض پر 57 مسلم ممالک ہونے کے باوجود بھی، کسی بھی مشکل کے وقت ہمیشہ غیر مسلم ممالک کی جانب ملتجی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ہماری مدد کریں، بحران سے نکالیں، جنگ کے شعلوں کو سرد کروائیں اور امن و سکون کو درہم برہم ہونے سے بچائیں۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا بھر کے مظلوم، مسلمان حکمرانوں کو پکار رہے ہوتے تھے۔ سندھ کی دھرتی پر محمد بن قاسم کیوں حملہ آور ہوا تھا؟، یہ بھی تو کسی مظلوم کی پکار تھی۔ مسلمان نہ صرف ملک پر ملک فتح کرتے جارہے تھے بلکہ وہ جہاں بھی جاتے، حکمرانی کا وہ اعلیٰ معیار پیش کرتے کہ آبادیاں کی آبادیاں حلقہ بگوشِ اسلام ہو جایا کرتی تھیں۔ کیوں؟، اس لیے کہ اس زمانے میں ظلم اتنا عام ہو چکا تھا کہ اُس وقت کی پوری دنیا کے انسانوں کی نگاہیں ہر وقت آسمان پر لگی ہوئی ہوتی تھیں۔ ان کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ جب بھی مسلمان ایسے علاقوں میں داخل ہوتے، ان مظلوموں کو ایسا لگتا تھا جیسے ان پر چھائے ہوئے ظلم و جبر کے بادل چھٹ گئے ہیں۔
اگر آج کل کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو عالم اسلام کا حال اُس وقت کے غیر مسلموں کے حالاتِ زندگی سے کچھ مختلف دکھائی نہیں دے گا۔ مشترک بات بھی وہی ہے جو اس وقت تھی یعنی اِس دور میں بھی اپنے اپنوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں، ناانصافی حد سے گزر چکی ہے، عدالتوں میں بیٹھے قاضی عدل و انصاف کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں، کمزور ظلم کی چکیوں میں پیسے جا رہے ہیں، صاحب اقتدار و اختیار کے قبضے میں انصاف کی ترازو ہے، مجرم آزاد اور بے قصور پابند ِ سلاسل ہیں، ہر جانب لوٹ مار کا بازار گرم ہے، منافع خوروں کی چاندی ہوگئی ہے، قتل کرنا فن بن چکا ہے اور زنا گلی گلی عام ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے عالم میں اس دور کے اہل ِ کفر جس طرح بار بار مسلمان حکمرانوں کی جانب دیکھا کرتے تھی بالکل اسی طرح آج کل کے مسلمان کبھی امریکا، کبھی روس اور کبھی چین کی جانب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور پوری دنیا کے اہل ِ کفار کو پکار پکار کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ کے واسطے ہمیں کرب و اذیت کے ماحول سے نکالو۔
سب سے دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ ایک جانب ہم رات دن ان کو گالیاں پٹخار رہے ہوتے ہیں دوسری جانب ہر معاملے میں ان ملکوں میں جاکر تعلیم حاصل کرنے، روزگار ڈھونڈنے اور رہائش اختیار کرنے میں نہایت فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ جب وہی دیسی ہم دیسیوں میں واپس آتے ہیں تو نہایت فخر و انبساط کے ساتھ ان کے ماحول کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں، ان کی تعلیم گاہوں کے معیار کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں، ان کے سودی نظام کے تحت زندگی گزارنا کامیاب زندگی کی علامت بتا رہے ہوتے ہیں، وہاں پر قانون کی حکمرانی و پاسداری ان پر گراں نہیں گزر رہی ہوتی اور 90 فی صد سے زیادہ وہ خاندان ہیں جو وہاں جاکر واپس اپنے ملک میں آنا اتنا ناگوار سمجھتے ہیں جیسے انہیں چمن زاروں سے اٹھا کر واش روموں میں بند کر دیا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ممالک اتنی ہی تعریف کے قابل ہیں اور جس انداز کی طرزِ زندگی، صفائی ستھرائی اور قانون کی بالا دستی اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ ساری باتیں ہیں بھی تعریف و ستائش کے قابل لیکن ظلم پر ظلم یہ ہے کہ وہی لوگ واپس اپنے اپنے ممالک میں ویسا ہی سب کچھ بنانے اور اختیار کرنے کی نہ تو ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی ان سب کے جیسا بننے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک جانب یہ دہرا معیار غور و فکر اور دوسری جانب دن رات ان پر لعنت ملامت اس بات کی علامت ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلنے کے لیے کہیں سے کہیں تک تیار نہیں۔
مسلمان ممالک کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دولت کے اعتبار سے بھی کوئی ایک بھی مسلمان ملک غریب نہیں لیکن کوئی ایک مسلمان ملک بھی یہ نہیں چاہتا کہ ان کے اپنے اپنے ملکوں میں قانون کی حقیقی حکمرانی ہو، انصاف کی آنکھ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب، سب کو ایک نظر سے دیکھتی ہو، فلاح و بہبود عام ہو، بڑی بڑی درس گاہیں ہوں، علوم و فنون کے بڑے بڑے مراکز ہوں، لوگوں کو مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو، اگر کوئی بے روزگار ہو جائے تب بھی وہ اور اس کا خاندان فاقوں سے بچا ہوا ہو، کاروبار میں دھوکا و فریب شامل نہ ہو، کوئی فٹ پاتھ پر نہ سوتا ہو اور پورے ملک کا بچہ بچہ اتنے سکون اور آرام سے زندگی گزار رہا ہوں جیسے دھرتی ماں نے اسے اپنی محبت بھری آغوش میں لے رکھا ہو۔
فلسطین کے حوالے سے تمام اسلامی ممالک اپنے اپنے منہ سے بمباری کرنے میں مصروف ہیں۔ لفظوں اور باتوں کے بڑے بڑے میزائل پر میزائل اسرائیل پر برسائے جا رہے ہیں، دنیا کے طاقتور ممالک پر طعن و طنز کے ایٹم بم پر ایٹم بم چلا کر اسی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح جنگ کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو سرد کریں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ جن ممالک پر وہ رات دن بد دعاؤں کے میزائل فائر کرتے رہتے ہیں، ان ہی سے یہ توقعات باندھے ہوئے ہیں کہ وہ امن قائم کروانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ بہت ہی سیدھی سی بات ہے اہل کفر خواہ کوئی بھی ہوں، ان کو ہم مسلمانوں سے کس بات کی ہمدردی ہو سکتی ہے۔ دشمن کب اپنے دشمن کو خوش دیکھنا چاہتا ہے لہٰذا یہ طے ہے کہ ہمیں ان سب بحرانوں سے خود نکلنا ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔ یہ اگر کر سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ یہ سمجھ لینا کہ غیر ہماری مدد کریں گے، اس سے بڑی بھول کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے ہی موقع کے لیے علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن