ایک شخص دو بلند میناروں کے درمیان بندھی رسی پر چلنے کے مظاہرے کے دوران اپنے ایک کمسن بچے کو کندھے پر سوار کرکے گزر رہا تھا۔ جو لوگ نیچے کھڑے اس مظاہرے کا نظارہ کر رہے تھے وہ نہایت مضطرب ہو کر اور اپنی اپنی سانسیں کھینچے اسے دیکھ رہے تھے۔ رسی پر چلنے والا شخص نہایت مطمئن اور پُر اعتماد دکھائی دے رہا تھا اور رسی کے دوسرے سرے کی جانب آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ رسی کے دوسرے سرے تک نہایت اطمینان کے ساتھ پہنچ گیا۔ نیچے کھڑا ہر فرد اس کی اس شاندار کامیابی، دلیری، بہادری اور جوان مردی پر شاباش دے رہا تھا۔ رسی پر چلنے والے نے لوگوں کے خاموش ہونے پر پوچھا کہ وہ اپنے بچے کو دوبارہ اپنے کندھے پر بٹھا کر مینار کے اس سرے پر جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا، کامیابی کے ساتھ واپس لے جا سکتا ہے؟۔ مظاہرین جو اس کی مہارت کے قائل ہو چکے تھے، بیک زبان بولے کیوں نہیں، ہمیں پورا یقین ہے کہ تم ایسا کر سکتے ہو۔ رسی پر چلنے والے شخص نے کہا کہ کیا اس ہجوم میں سے کوئی اپنے بچے کو میرے حوالے کر سکتا ہے تاکہ میں اُسے رسی کے اِس سرے سے اُس سرے تک لے جاؤں۔ پورے ہجوم کو سانپ سونگھ گیا۔ جب کوئی جواب نہ آیا تو رسی پر چلنے والے شخص نے ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’’کہنے‘‘ اور ’’یقین‘‘ میں بہت فرق ہوتا ہے۔
لوگو! تمام زندگی میری تمہارے سامنے گزری ہے۔ بچپن سے لیکر اب تک تم نے مجھے کیسے پایا۔ یہ وہ سوال تھا جس کو سن کر ہر چہرہ بول اٹھا کہ محمدؐ بن عبد اللہ ہم نے آپؐ کو سچا اور امین پایا۔ یہ سن کر آپؐ نے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک فوج کھڑی ہے جو تم پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا تم اس بات پر یقین کر لوگے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا، بالکل یقین کر لیں گے۔ تب آپؐ نے کہا کہ لوگو! اس کائنات کا مالک و خالق صرف اور صرف ایک اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی نے مجھے اپنا رسول بناکر تمہاری جانب بھیجا ہے۔ بس یہ کہنا تھا تھا کہ وہیؐ جو ان کے لیے صادق اور امین تھے، غلط ہو گئے۔
بات مختصر سی یہی ہے کہ منہ سے کہہ دینا اور دل سے یقین کرلینا، ان دونوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے۔ ایمان خود کیا ہے؟، یہ ایک ایسے وجدان کا نام ہے جس کے لیے دلیلوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کو اللہ تعالیٰ کی توفیق کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان سب کے باوجود بھی کوئی یہ کہے کہ پھر جس کو ایمان کا وجدان عطا نہیں ہوا اس میں اس کی ذات کا کیا قصور تو اسے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اللہ سے بڑھ کر نہ کوئی رحمان ہے اور نہ ہی رحیم لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی بھی فرد و بشر کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کرے۔ اس نے صاف صاف فرمادیا ہے کہ ’’انسان کے لیے کچھ بھی نہیں مگر جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے‘‘۔
ہم اگر قرونِ اولیٰ کے ان افراد کا مطالعہ کریں جنہوں نے دین کی دعوت کو پہلے پہل قبول کیا تو ان میں واضح اکثریت ان افراد کی ہو گی جو عالم کفر میں بھی تلاشِ حق میں رہتے تھے۔ ان کا کردار اس وقت کے معاشرے میں موجود دوسرے افراد سے کئی لحاظ سے مختلف تھا اسی لیے جب ان کے کانوں میں دعوت حق پہنچی تو انہوں نے کسی بھی نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر، اسے قبول کر لیا۔
جیسا کہ کہا کہ ایمان و یقین کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی تو اس سلسلے میں میں دو مثالیں پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ معراج کے واقعے کا سن کر اہل کفر و شرک نے اسے آپؐ کی تضحیک کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ ہر فرد ہرفرد سے ہنس ہنس کر کہتا تھا کہ (نعوذ باللہ) پہلے آپؐ صرف بہکی بہکی باتیں ہی سنایا کرتے تھے اب عجیب عجیب قصے بھی سنانے لگے ہیں۔ اسی عالم میں وہ ابو بکر صدیقؓ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اگر کوئی دعویٰ کرے کہ اس نے راتوں رات آسمانوں کی سیر کی ہے تو کیا تم یقین کر لوگے، انہوں نے کہا نہیں، کہا تمہارا دوست ایسا کہتا پھر رہا ہے تو آپ نے کہا کہ اگر انہوںؐ نے کہا ہے تو وہ جھوٹ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح کفار کے لشکر سے ایک جنگجو حاضر ہوتا ہے اور حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی تمنا کرتا ہے۔ کلمہ پڑھا کر اسے مسلمان ہونے کی خوش خبری سنائی جاتی ہے، صحابہ خوش ہو کر اس کی جھولی کھجوروں سے بھر دیتے ہیں۔ وہ پوچھتا ہے کہ ابھی تو میں نے صرف کلمہ ہی پڑھا ہے، ایک نماز تک ادا نہیں کی، ایسے عالم میں اگر میں اہل ِ کفار سے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں تو کیا مجھے جنت مل جائے گی، کہا گیا یقینا۔ وہ اپنی ساری کھجوریں وہیں چھوڑ کر کہتا ہے تو پھر یہ کھجوریں بھی میں جنت ہی میں چل کر کھاؤں گا۔
بات بہت سادہ سی ہے کہ ہماری تباہی و بربادی کا اصل سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی صرف ’’کہنے‘‘ والا ہے ’’یقین‘‘ والا کوئی نہیں۔ ایک ایک مسلمان خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک، فرقے اور جماعت سے ہو، وہ اتنا مصلحت پسند ہو گیا ہے کہ صرف ’’کہتا‘‘ ہے ’’یقین‘‘ نہیں رکھتا۔ جب تک ہم مصلحت پسندی کے حصار کو توڑ کر یقین کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گے اس وقت تک ہم صرف ایک دوسرے کی جانب انگلیاں ہی اٹھاتے رہیں گے۔ لہٰذا اب نعرے بازیوں کو چھوڑیں اور کچھ کر گزر سکتے ہیں تو کر گزریں ورنہ یہ یہ شاہین، غوری، خالد، ایٹم بم اور بیسیوں قسم کے میزائل بہادر شاہ کی فوج کی توپوں کے سوا اور کچھ بھی ثابت نہ ہو سکیں گے جن کے دہانوں میں پرندوں نے اپنے گھونسلے بنا لیے تھے۔