سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ طاغوتی نظام ہے کیا؟ طاغوت کہتے ہیں اْس نظام کو جو اللہ کے مقابلے میں اپنی اطاعت کروائے، اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا گویا اْس نے مضبوط سہارا پکڑ لیا جو نہ ٹوٹے گا نہ چھوٹے گا۔ آج اگر ہم دْنیا پر نظر ڈالیں تو بد قسمتی سے پوری دنیا سیکولرزم یا طاغوتی نظام کی لپیٹ میں ہے، امریکا ہو، برطانیہ ہو یا یورپ ہو یا پاکستان ہر جگہ سیکولرزم یا طاغوتی نظام ہے، کیونکہ اس نظام میں لوگوں کو آسانیاں نظر آتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج کے انسان کو سکون کا راستہ میسر نہیں آرہا، اْس کی ایک بنیادی وجہ مذہب بھی ہے۔ مذہب انسان کو کچھ دے نہیں سکتا کیونکہ یہ انسان کا بنایا ہوا قانون ِ مذہب ہے، جیسے سیکولرزم، سوشلزم، کمیونزم ہے، جیسے ہندوستان میں دیوی دیوتا ہیں اور ایسے بے شمار مذاہب ہیں جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، جیسے ہمارے یہاں بریلوی،دیو بندی، اہل حدیث، یہ سارے کے سارے مذہب ہیں، اسی طرح پوری دْنیا میں لوگ مذہب یا سیکولرزم کے تابع ہیں، اگر ہم صرف اپنے ملک کی بات کریں تو 1947 کے بعد سے وہ تصور جو قیام پاکستان کا مقصد تھا یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین اسلام کا نفاذ جو یکسر مْسترد کر دیا گیا، اور ملائوں نے مذہب ایجاد کردیا، پھر ایک دوسرے کو طعنہ و تشنیع دیتے رہے اگر دیکھا جائے تو یہ مذہبی لوگ بھی سیکولر ہی ہوتے ہیں، دوسری طرف وہ لوگ جو اپنے اپ کو سیکولر اور کمیونسٹ کہتے ہیں اْنہوں نے کم از کم دْنیا کی ہر چیز میں نہ صرف جدت پیدا کی بلکہ اپنا لب و لہجہ اپنی شاعری اور اپنی تحریروں کو لوگوں کے لیے جاذب نظر بھی بنائی جس کو پڑھ کر لوگوں کو تسکین تو ملتی ہے، مگر اس کے باوجود بھی لوگوں کو سکون اور قرار میسر آ جائے ایسا کچھ نہیں ہے، اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے اپنا دین، جو دین اسلام ہے اس کو بھی مذہب بنانے میں تن من دھن کی بازی لگا دی ہے، تاکہ کسی بھی صورت سے دین اسلام کبھی قائم نہ ہو سکے نہ اْس کی حکمرانی ہو، کیونکہ دین اسلام ایک نظریہ ہے جس میں زندگی گزارنے کا طریقہ ہے، جس کے نافذ نہ ہونے کی وجہ سے آج پوری دْنیا میں مسلمان ذلیل و خوار ہو رہا ہے، ہر چیز تو ہم نے غیروں کی اپنا رکھی ہے تہذیب تمدن لباس، ثقافت، شادی بیاہ غرض زندگی کے تمام طور طریقے یہودیوں، اور عیسائیوں سے مشابہت کرنے لگے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دین اسلام سے نا واقف ہیں۔
یاد رکھیں کہ دین اسلام حکمرانی کرنے آیا ہے جو ایک نظام حیات ہے، اور اس نظام حیات پر کوئی بھی بشمول نام نہاد عرب ممالک یا اسلامی ممالک اس موضوع پر بات بھی نہیں کرنا چاہتے، مساجد کے مولوی اپنی راگ الآپ رہے ہیں دانشور اپنی قابلیت جھاڑ رہا ہے، مگر جو اصل روح ہے دین کی جس میں حکمرانی فرض عین ہے بلکہ شرط ہے، اگر آپ قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کی پہلی جدوجہد حکمرانی کی ہے، مگر افسوس جو رائج الوقت اسلام ہے وہ کفر کے سائے میں پل رہا ہے، اور کفر کو بھی ایسے رائج الوقت اسلام سے کو ئی خطرہ نہیں ہے، اس کی بہترین مثال ضیا الحق کے دور کی ہے انہوں نے دین کا تو خوب پرچار کیا روزہ، نماز، زکوٰۃ کی باتیں بھی خوب کی مگر دین اسلام کو نفاذ العمل نہیں کیا، دوسری طرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے آقائے دوجہاں کو اس انداز میں پیش کیا جیسے رسول اللہ روزے رکھوانے اور نماز پڑھانے آئے تھے اور بس، باقی سیکولر اور مذہبی ملائوں نے اپنے معاملات اور اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے دین کی شکل بدل دی، جیسے شب برات، ربیع الاول، برسی، سوئم، جو سب بیکار کی باتیں ہیں، کیونکہ ان تمام معاملات میں ہمارے مذہبی مولویوں کا نفس شامل ہے، اس لیے اس مذہب کا پرچار بھی خوب ہوتا ہے جس میں لوگوں کے لیے آسانی بھی ہے، اصل چیز ہے دین اسلام اس کو خالص دین کی حیثیت سے پیش کرنا ہوگا، اور اْس کو نافذ کرنا ہوگا، تب کہیں جا کر مسلمانوں کو نصرت عطا ہو گی اور دْنیا میں اْس کا وقار بلند ہو گا۔
آپؐ کے وصال کے بعد خلفائے راشدین کے دور تک تو دین اسلام اور اسلامی قوانین کا نفاذ قائم رہا، مگر جیسے ہی بنو اْمیہ اور بنو عباس کا دور شروع ہوا تو انہوں نے اسلامی قوانین تو رکھے مگر ساتھ ساتھ نفس کی پیروی بھی کرتے رہے، اور اپنی رائے کو بھی مقدم سمجھنے لگے، اگر یہ ایسا نہیں کرتے تو امام حسین کو جنگ میں جانے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی، امام حسین کسی اقتدار یا کسی منصب کے خواہش مند تو نہ تھے، اْن کی تو ناراضی ہی اس بات پر تھی کہ اْن کے نانا کا دین قائم رکھا جائے، جو دنیا و آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے اور یہی رسول اللہ کا دین اسلام ہے جس کے لیے آپ رسول بنا کر بھیجے گئے، آخر میں یہ کہوں گا کہ آج بھی پوری اْمت مسلمہ کو ایک ایسے حسین کی ضرورت ہے جو امام حسین کے نانا کے دین کو نافذ کروا سکے، اور اس دعا کے ساتھ کہ پاکستان میں اْن لوگوں کی مدد فرما جو تیرے دین کے نفاذ اور اْس کی حکمرانی لیے کوشاں ہیں (امین)