اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منصب اعلیٰ وزارت عظمیٰ پر براجمان رہنے والے منفرد وزیراعظم محمد نواز شریف اور مقتدر حلقوں سے لڑائی کے بعد اقتدار سے جدائی کی بدولت ریل سے جیل تک سفر بعد سمجھا جانے لگا کہ تین کی تعداد پوری ہوچکی اب چیپٹر بند ہوا۔ مگر اس ملک میں انہونی ہونا اور ایک بل سے بار بار ڈسا جانا معمول کی بات ہے، سو سیاسی حلالہ نے محمد نواز شریف کے اقتدار کی اُمید ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) میں جگا دی۔ چار سال کی جلاوطنی اور آب و ہوا کی تبدیلی جو بڑی عدالت نے علالت کے علاج کی خاطر دی تھی اس مدت میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ نے مقتدر حلقوں کی ناک میں دم کردیا تو پھر جانے کے بعد نواز شریف کی یاد ستانے اور منانے کی کہانی کا آغاز ہوا۔ سزا یافتہ محمد نواز شریف ملک میں آئیں اور جیل اُن کا مہمان خانہ بنے یہ کوئی نیک شگون تو نہ رہتا، سو عدل کے سرچشمہ نے عدالت میں مجرم کے حاضر ہوئے بغیر چار روزہ حفاظتی ضمانت ہدیہ کردی، یہ بھی منفرد واقعہ عجب کہانی کی کتاب میں لکھا گیا۔ جب حفاظتی اقدامات اور خوف و ڈر کا ساماں ہوگیا تو اقتدار کے دولہا کو شایان شان طریقے سے پاکستان میں لانے کا اہتمام پارٹی نے عیار پیر کی طرح جنت کا ٹکٹ بانٹ کر کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے استحکام خاطر استحکام پاکستان نامی نوزائیدہ پارٹی کے جہانگیر ترین نے اپنے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اُن کے قدموں میں پلکیں بچھائیں، جہانگیر ترین جو عمران خان کے قریب ترین تھے حالات کی بدولت ’پرات گئی برات گئی‘ کے مصداق چھوڑ چلے۔
محمد نواز شریف اب چوں کہ شاہی مہمان تھے تو سرکار کے نمک خوار افسران نے سلوٹ مار کر اور ائرپورٹ پر ہی بائیو میٹرک سے محمد نواز شریف کی تصدیق کا سامان کیا۔ ہیلی کاپٹر اپنے مہمان کو لے کر مینار پاکستان پر جا اُترا تو وہاں جنت کے متمنی اور نواز شریف کے شیدائیوں نے استقبال کیا تو مریم نواز نے چمٹ کر اپنے والد کی وطن واپسی کا خیر مقدم کیا۔ جلنے والوں نے اس کو ڈراما قرار دیا اور وہ بھول گئے کہ سیاست میں اب ڈراما ہی بچا ہے۔ بلاول زرداری جو نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت میں وزیر خارجہ رہے انہوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں کہہ ڈالا تھا کہ 20 ہزار سپاہیوں کی حفاظتی تدبیر دراصل جلسہ عام کو کامیاب کرنے کی حکمت عملی ہے، اقتدار کے راز وہی جانے جو شریک اقتدار اور ہم نوا رہے ہوں اور گھر کے بھیدی ہوں۔ محمد نواز شریف کی چوتھی بار وزارت عظمیٰ کی اُمید نے فی الحال بلاول کے وزیراعظم بننے کے خواب کو بانجھ کردیا ہے۔ ان دنوں وہ سوکن کی صورت حال سے دوچار بتائے جاتے ہیں۔ کچھ دانشور چینل پر کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں میئر شپ کے حصول خاطر جو ہتھکنڈے پی پی پی حکومت نے اختیار کیے اُس کے کانٹے اب پلکوں سے پی پی پی قیادت کو چننے پڑ رہے ہیں اور آصف زرداری کی بلاول کی وزارت عظمیٰ کے لیے سرمایہ کاری بھی اب دائو پر لگ گئی ہے۔ بہرحال کبھی سچے دوستوں اور کبھی دشمنوں کے گھر کی بات ہے۔ نواز شریف کا جلسہ کامیاب رہا یا ناکام تبصرے جاری ہیں۔
نوابشاہ تک سے افراد لاہور پہنچے اور وہ شہر لاہور یعنی اور لا کا تقاضا کرتا رہا۔ نواز شریف نے اپنے خطاب لاجواب میں ملک و قوم کو یہ ایجنڈا دیا کہ ’’انتقام نہیں خوشحالی! یہ اس ہی قسم کا ذو معنی جملہ ہے جو آصف علی زرداری نے بے نظیر کی شہادت پر پاکستان کھپے کی صورت ادا کیا تھا۔ انتقام کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لڑ کر دیکھ لیا اور بھگت بھی لیا اب سوال ہے خوش حالی کا وہ کس کی اپنی اور رفقا کی جو پہلے ہی مملکت کے وسائل سے سرسبز و شاداب ہے وہ اب بھی کیا وہ ’’ہل من مزید‘‘ کا سامان تو نہیں چاہتی ہے اور تکاثر کے عارضہ کا تقاضا تو نہ ہو چلا ہے، ہاں اگر خوشحالی ملک اور ملت کی خواہش ہے تو جو ملک سے انہوں نے لیا ہے وہ لوٹا دیں اور ضرورت کا سامان رکھ لیں یہ سرمایہ لوٹے گا ملک پر لگے گا۔ تو دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے۔ رہا زبانی جمع خرچ وہ لاحاصل ہے۔ محمد نواز شریف کا یہ کہنا کہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کو دوہری رفتار سے کام کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ موقع ملے ہے کبھی کبھی اس کو غنیمت جان کر مزید غنیم جمع کرلو، تو نہ سمجھیں ان کے بیٹے جمورے۔ رہا کشکول کو توڑنا یہ بڑے دل گردے کا عمل ہے جس نے مانگ کر کھالیا وہ کما کر کیسے کھاتا ہے، بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں ویسے بھی جلسہ گاہ میں مریم نواز نے بات پردے میں رہنے یوں نہ دی کہ ’’ظلم مٹ گیا اور بہار دوبارہ آنے کو ہے‘‘ اس کا مطلب کوئی پہلی نہیں اب ایک امید بہار مقتدر حلقوں نے باندھی ہے جو وہ باندھتے رہتے ہیں اور پھر ٹوٹ بھی جاتی رہی ہے یہ خود توڑ دی جاتی ہے۔ اب قوم کو بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے قائد اعظم کے دور سے جو کھوٹے سکے جو ملک میں چلا رہے ہیں دنیا اُن کو پہچان چکی ہے مگر یہ کورچشم اندھیرے میں اس کاروبار کو جانتے بوجھتے کیوں۔ رواں دواں رکھے ہوئے ہیں یہ ہر مرتبہ ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرتے ہیں بمشکل اُٹھتے ہیں اور پھر اکڑ کر کیوں چلتے ہیں۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ محمد نواز شریف کو جھانسہ اقتدار دیا گیا ہے اور کواکب میں ہے کچھ اور نظر آتا ہے کچھ نہ ڈراوا، ہے سیاسی بلونگڑوں کو ڈرانے کے لیے باقی کچھ نہیں شیر پنجرے میں آگیا ہے اب سرکس کے منیجر کی مرضی چلے گی۔ اک آگ کا دریا ہے ڈوب کر جانا ہے کا معاملہ نواز شریف سے ہوگا۔ اگر نافرمانی دکھائی تو چابک ہوا میں لہرائے گا اور پھر بھی بات نہ بنی تو بے نظیر کی صورت جان کی بازی سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم لہو سے تاریخ رقم کرنے والے ہیں۔ اب اقتدار کے پیاسے پرندے ان کے گرد منڈلا رہے ہیں مگر انتخاب کی ٹرین آنے کا دور دور تک اشارے نہیں مل رہے ہیں ٹرین کتنی لیٹ ہے ٹریک میں کتنی خرابی ہے اور کتنی دیر اور لگے گی کسی کو کچھ پتا نہیں۔ کیا نواز شریف کو آسرۂ اقتدار دے کر دل کو بہلایا گیا ہے؟ یا میاں بھائی کس کے کام نکلا کھسکے۔ یہ تجربات جو قیام پاکستان کے بعد سے اب تک شروع ہیں اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ حمام میں سب ننگے ہیں اور لوٹ کے گنگا اشنان میں سب شرک ہوں۔ رہی جماعت اسلامی جس کے میئرز نے کراچی، ٹنڈو آدم میں دیانت شرافت کا سکہ منوایا جو کہ کے پی کے کی حکمرانی میں پاک پوتر رہی اور اس آزمودہ کار جماعت اسلامی سے خائف یوں ہیں کہ یہ نہ کھائیں گے نہ کھانے دیں گے تو پھر ڈائنوں سے ملک چلانے کا تجربہ معیشت کا کلیجہ ہی چاٹ کھائے گا۔
جماعت اسلامی نے تو مشرقی پاکستان میں فوج کے شانہ بشانہ بھارت کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے غزوۂ بدر کا کردار ادا کیا مگر محمد نواز شریف کا کردار رہا کہ جناب نے واجپائی وزیر اعظم بھارت کے آگے پلکیں بچھائیں اور حاضر سروس جاسوس کلبھوش جو پاکستان میں تخریب کاری میں ملوث تھا پکڑے جانے پر بھارت کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہ کہہ کر ازلی دشمن بھارت کی تالیف قلب کی اور ممبئی واقعہ کی ذمے داری اپنے ملک پاکستان پر ڈال کر وعدہ معاف گواہ کا کردار ادا کیا سب وہ بھول رہے جنہیں یاد رکھنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے اور ان شریفوں نے ملک کو لوٹنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اب پھر دودھ کی طرح پاکستان کی رکھوالی بلی کے سپرد کرنا ہے تو اس پر عقل کا ماتم ہی کیا جاسکتا اللہ اپنی تدبیر کو غالب کرے گا۔ ان شاء اللہ شر کو خیر سے بدل دے گا۔