شیخ رشید پاکستان کی سیاست کا نہایت ڈرامائی کردار ہے۔ وہ جنرل ایوب خان کے زمانے سے سیاست کررہے ہیں، پہلے طلبہ کی سیاست میں سرگرم تھے، تعلیم سے فراغت کے بعد عملی سیاست میں آگئے، پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں بنی تو انہوں نے میاں نواز شریف کے ہاتھ پر بیت کرکے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی اور اپنی شعلہ بیانی کے سبب میاں صاحب کے ترجمان سمجھے جانے لگے۔ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کئی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔ پھر جب جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور انہیں گرفتار کرکے دس سال کے لیے پاکستان سے جلاوطن کردیا تو شیخ صاحب جنرل پرویز مشرف کے چرنوں میں آبیٹھے اور فوجی حکومت کا دم بھرنے لگے۔ اس کا صلہ انہیں وزارت کی صورت میں ملا۔ وہ پہلے وزیر اطلاعات بنائے گئے اور آخری دنوں میں ریلوے کی وزارت ان کے سر منڈھ دی گئی۔ ریلوے کا بیڑا غرق کرنے میں انہوں نے بڑی پھرتی دکھائی۔ ان کے جب مشرف کی حکومت کے ساتھ شیخ صاحب بھی رخصت ہوئے تو ادارہ اربوں روپے کا مقروض تھا۔ شیخ رشید وزیر اطلاعات کی حیثیت سے مشرف حکومت کے ترجمان بھی تھے اور جنرل پرویز مشرف کی چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد جب امریکی وزیر خارجہ کی ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کے آگے سرنڈر کیا اور افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان کے تمام زمینی، فضائی اور بحری وسائل امریکا کے حوالے کردیے تو شیخ صاحب نے پرویز مشرف کی اس بزدلانہ اور قومی مفادات سے غداری کی اس حرکت کا پرجوش انداز میں دفاع کرتے ہوئے اسے مشرف کا نہایت دانشمندانہ اقدام قرار دیا اور کہا کہ اگر جنرل صاحب یہ قدم نہ اٹھاتے تو امریکا پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا دیتا۔
خیر یہ سب پرانی باتیں ہیں البتہ ان میں شیخ رشید کی سیاسی زندگی کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ وہ ہمیشہ چڑھتے سورج کے پجاری رہے ہیں۔ نواز شریف کا دور عروج تھا تو وہ ان کے گن گایا کرتے تھے اور انہیں خوش کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو پر نہایت عامیانہ فقرے چُست کرتے تھے۔ بالآخر اس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑا۔ بے نظیر بھٹو برسراقتدار آئیں تو انہوں نے لال حویلی سے بلا لائسنس کلاشنکوف برآمد کرکے انہیں گرفتار کرلیا اور پنجاب کی ایک دور دراز جیل میں رکھ کر ان کی خوب سینکائی کی۔ شیخ صاحب ایسے تائب ہوئے کہ پھر ان کے منہ سے کوئی بیہودہ جملہ نہیں نکلا، آخر وہ معافی مانگ کر آصف زرداری کے دوستوں میں شامل ہوگئے۔ جنرل پرویز مشرف کے زوال کے بعد شیخ رشید نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) میں گھسنے کی کوشش کی، میاں نواز شریف سے معافی تلافی بھی کی لیکن میاں صاحب معاف کرنے پر آمادہ نہ ہوئے اور بات ختم ہوگئی۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے عمران پروجیکٹ شروع کیا تو شیخ رشید کو امید کی نئی کرن نظر آئی اور وہ عمران خان کے گرد پھیرے لگانے لگے۔ خان صاحب شیخ رشید کے بارے میں بڑی منفی رائے رکھتے تھے اور وہ انہیں اپنا چپڑاسی بنانے کو بھی تیار نہ تھے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ فوج کا آدمی ہے، ہمیشہ فوج کے گن گاتا ہے اور جرنیلوں سے مراسم رکھتا ہے تو وہ فوراً شیخ رشید کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ شیخ رشید نے نواز شریف سے علاحدگی کے بعد اپنی یک رکنی جماعت عوامی مسلم لیگ بنالی تھی وہ اپنی جماعت کو تحریک انصاف میں ضم کرنے پر تو آمادہ نہ ہوئے البتہ وہ عمران خان کے اتحادی بن گئے اور ان سے راولپنڈی کی قومی اسمبلی میں دونوں نشستیں لے اڑے۔ جب عمران خان برسراقتدار آئے تو وفاقی وزارت بھی ان کی جھولی میں آگری اور شیخ صاحب عمران خان کے پونے چار سالہ اقتدار کے دوران موج میلہ کرتے رہے۔
شیخ رشید کی دنیاوی اعتبار سے کامیاب زندگی کی کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے انہوں نے ساری عمر شادی بھی اس لیے نہیں کی کہ وہ ایک پرتعیش زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ یہ دور تمام ہوا اب ان کی زندگی ابتلا و آزمائش کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ یہ سب کچھ ان کے اندازے کی غلطی تھی ورنہ وہ کب کا اپنا قبلہ تبدیل کرچکے ہوتے۔ جب عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا اور عوام میں غلامی نامنظور کے خان صاحب کے بیانیے کو پزیرائی حاصل ہوئی تو شیخ صاحب نے یہ سمجھا کہ عمران خان عوام کے ووٹوں سے ایک بار پھر برسراقتدار آسکتے ہیں اس لیے انہیں خان صاحب کے ساتھ جڑے رہنا چاہیے وہ ٹی وی کے ٹاک شوز، اپنے بیانات اور ٹوئٹس میں خان صاحب کا ہر حال میں ساتھ دینے کا اعلان کرتے رہے یہاں تک کہ 9 مئی کے افسوسناک واقعات رونما ہوگئے ان واقعات میں تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کا ملوث ہونا ظاہر و باہر تھا اس لیے بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ عمران خان کو بھی توشہ خانہ کیس میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ تحریک انصاف کے بہت سے لیڈر روپوش ہوگئے اور ان کی گرفتاری کے لیے گھروں پر چھاپے پڑنے لگے۔ شیخ رشید اگرچہ تحریک انصاف میں نہیں تھے لیکن انہوں نے بھی روپوش ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ وہ اپنی روپوشی کے دوران بھی ٹویٹ کرتے رہے اور گرفتاری سے بچنے کے لیے بار بار اپنی قیام گاہ بدلتے رہے۔ آخر کب تک؟ کسی نے مخبری کردی اور بحریہ ٹائون سے پکڑے گئے۔ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وہ زمانہ ہے کہ آدمی چھینک بھی مارے تو اس کی آواز دنیا کے آخری کونے تک سنائی دے جاتی ہے۔ شیخ رشید کی گرفتاری کی خبر بھی اسی روز الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر آگئی جس میں بتایا گیا تھا کہ بحریہ ٹائون فیز تھری (راولپنڈی) میں شیخ رشید کی قیام گاہ پر چھاپا مار کر سادہ کپڑوں میں ملبوس چند افراد شیخ صاحب کو پکڑ کر لے گئے ہیں۔ سادہ کپڑوں کی اصطلاح بھی دلچسپ ہے ہم سب لوگ بھی سادہ کپڑے ہی پہنتے ہیں، ان پر کوئی گل بوٹے نہیں ہوتے لیکن ہمیں سادہ کپڑوں والے نہیں کہا جاتا۔ یہ اصطلاح ایک خاص خفیہ ادارے کے اہلکاروں کے لیے مخصوص ہے۔ جب میڈیا یہ بتاتا ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے یہ کارروائی کی ہے تو عام آدمی بھی یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ کس خفیہ ادارے کی کارروائی ہے۔
شیخ رشید مہینہ ڈیڑھ تک میڈیا کے منظر سے غائب رہے۔ انہیں کسی سیف ہائوس میں رکھا گیا تھا اور وہاں ان کی کیا خاطر تواضع کی گئی۔ اس بارے میں راوی خاموش ہے۔
پھر اچانک وہ ایک ٹی وی چینل پر نمودار ہوئے اور اینکر پرسن منیب فاروق کے سوالوں کے جواب دینے لگے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور لہجے میں لرزش جھلک رہی تھی۔ منیب فاروق نے پوچھا شیخ صاحب آپ اچانک غائب ہوگئے تھے اتنا عرصہ کہاں رہے؟ شیخ صاحب نے جواب دیا ’’میں تبلیغی جماعت کے ساتھ چلے پر چلا گیا تھا ان لوگوں نے میرے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیا کوئی تکلیف نہیں ہونے دی، میں راتوں کو اٹھ کر اللہ سے دعائیں مانگتا تھا اللہ نے مجھ پر بڑا کرم کیا، اینکر پرسن نے کہا کہ شیخ صاحب میں نے پہلے بھی کئی بار آپ کا انٹرویو کیا ہے لیکن اب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں اس پر یقین نہ کروں تو؟ شیخ صاحب نے ایک شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا آپ ایسا کرسکتے ہیں لیکن میری خاطر اس پر یقین کرلیں۔ پھر دونوں کے درمیان بہت سے سوال و جواب ہوئے۔ شیخ رشید نے تسلیم کیا کہ ہماری سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ہم جنرل عاصم منیر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر بیٹھے تھے اور اس کا آغاز اس وقت سے ہوگیا تھا جب عاصم منیر آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو ان کے قریبی لوگوں کی کرپشن کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ خان صاحب کو یہ رپورٹ بہت ناگوار گزری اور انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ سے مطالبہ کیا کہ اس شخص کو آئی ایس آئی کے منصب سے ہٹادیا جائے۔ چناں چہ وزیراعظم عمران خان کے مطالبے پر جنرل عاصم کو ان کے منصب سے سبکدوش کردیا گیا۔ اس طرح دونوں کے درمیان دشمنی کی ایک بنیاد پڑ گئی۔ پھر جب نئے آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ آیا تو جنرل عاصم منیر سب سے سینئر تھے لیکن عمران خان کی کوشش تھی کہ وہ آرمی چیف نہ بننے پائیں۔ اس طرح یہ دشمنی مزید گہری ہوگئی اور 9 مئی کے واقعات نے اسے انتہا کو پہنچادیا۔ شیخ صاحب نے ڈھکے چھپے انداز میں بتایا کہ عمران خان سمجھتے تھے کہ فوج کے اندر ان کی بڑی حمایت موجود ہے جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت ہو جائے گی اور نیا آرمی چیف آجائے گا ایسا کچھ نہیں ہوا اور عمران خان کو لینے کے دینے پڑ گئے۔
اینکر پرسن نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ جب عمران خان یہ سب کچھ کررہے تھے تو آپ نے ان کو سمجھایا نہیں؟ شیخ رشید نے جواب دیا کہ عمران خان بڑا ضدی انسان ہے کسی کی نہیں سنتا۔ اب وہ اسی ضد کا بھگتان بھگت رہے ہیں۔ شیخ صاحب کے انٹرویو کی خاص بات یہ تھی کہ وہ چیف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کرکے ان سے 9مئی کے واقعات میں ملوث سب افراد کے لیے معافی کی درخواست کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ درخواست اس وقت قبول ہوگی جب وہ واقعی تبلیغی جماعت کے ساتھ چلہ لگا کر راتوں کو اللہ کے حضور گڑگڑائیں گے اور اس سے معافی کی درخواست کریں گے۔ کسی انسان میں اتنا ظرف نہیں ہے کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کی پہاڑ جیسی غلطیوں کو معاف کرسکے۔ ہاں اللہ بڑا غفور الرحیم ہے، وہ معاف بھی کرتا ہے رحم بھی فرماتا ہے۔