خانہ زاد سیاست

673

مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں پاکستان ایک خوشحال ملک تھا مہنگائی اور بے روزگاری کا نام تک نہ تھا مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، کیونکہ مہنگائی اور بے روزگاری پر کوئی بھی حکومت قابو نہیں پاسکی، غیر جانبدار پاکستانیوں کے لیے ہر حکومت نے روزگار کر شجر ممنوع بنا دیا ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت ہو یا پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہو اپنے ورکروں کو نوازتی رہتی ہیں۔ مختلف حیلوں اور بہانوں سے قومی خزانے کو لوٹتی رہی ہیں، البتہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی حکومتوں سے پہلے اشیائے ضروریات کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے زیادہ نہ تھیں، گھی ساٹھ روپے کلو تھا اسی طرح دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخ بھی مناسب تھے اس کے بعد جو بھی حکومت آئی مہنگائی کا تحفہ ساتھ لائی، مریم نواز عوام کو باورکرارہی ہیں کہ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے پاکستان واپس آئے ہیں، گویا وزارت عظمیٰ آنکھیں بچھائے ان کی منتظر ہے۔

پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ بلاول زرداری کے سوا کوئی بھی وزارت عظمیٰ کا اہل نہیں، مگر قوم کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وزیر اعظم کون ہو گا، کسے وزیر اعظم ہونا چاہیے، وہ تو یہ سوچتے ہیں کہ ایسی حکومت آئے جو ملک و قوم کے لیے خوش کن ہو، انہیں روزگار دلائے اور مہنگائی سے نجات دلائے، مگر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کی اکثریت عوام کی نمائندہ نہیں ہوتی وہ سرمایہ کاری کرتے ہیں، ووٹ خریدتے ہیں جو ووٹ خریدے گا وہ عوام کی نمائندگی کیسے کرے گا، کیوں کرے گا، وہ تو صرف اپنی سرمایہ کاری سے مستفید ہوگا۔

یادش بخیر! ہم نے بلاول زرداری کی پیدائش پر ’’پیداگیر‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا، جس میں بہاول پور کے اس شخص کا ذکر کیا گیا تھا، جس نے بلاول زرداری کے ننھے منے ہاتھوں میں پانچ لاکھ تھما دیے تھے، شنید ہے پارٹی فنڈ کے نام پر بھی کئی لاکھ روپے عطیہ دیا تھا جس کے باعث انہیں پارٹی ٹکٹ مل گیا تھا اور کامیابی کے بعد ایک وزارت بھی ان کی جھولی میں ڈال دی گئی تھی۔

میاں نواز شریف پاکستان واپس آگئے ہیں، ان کی واپسی کے نتائج کیا ہوں گے، جہاں تک ان کے مقدمات کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں چیف جسٹس پاکستان فائز عیسیٰ کی رائے فیصلہ بن سکتی ہے، میاں نواز شریف کی سزا پر ان کا ردِ عمل ریکارڈ پر موجود ہے جو ان کی بے گناہی کا ثبوت ہے، اس تناظر میں قانونی پیچیدگی کا امکان نہیں مگر عوام کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی، تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام نے ان کی آمد کو خوش آئند قرار دیا تو یہ عمل مسلم لیگ (ن) کے لیے خوش کن ثابت ہو گا اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی خواہش خبر نہ بن سکے گی، سیاسی مبصرین اور عوامی حلقوں کی رائے کے مطابق مقتدر قوتوں کی نظر میں میاں شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے لیے ایک بہتر انتخاب ہو سکتے ہیں، سو، ان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا، اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف اس امکان پر خاصے پریشان ہیں، ان کی پریشانی اس بات کی غماض ہے کہ وہ اپنے برادر میاں شہباز شریف کو برادر ِ یوسف سمجھنے لگے ہیں۔ اور یہی خدشہ مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز کو بھی لاحق ہو چکا ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ اسی خدشے کے پیش ِ نظر وہ عوام کو باور کرانے کی کوشش کررہی ہیں کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے۔ یہاں یہ سوال دامن گیر ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف تاحیات کیوں وزیراعظم رہنا چاہتے ہیں، کیا کوئی اور وزارت عظمیٰ کا اہل نہیں، ان کی اسی سوچ کے باعث سیاسی مبصرین اور عوامی حلقوں کے ذہنوں میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کو خانہ زاد بنانا چاہتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ ان کے بعد مریم نواز پاکستان کی وزیر اعظم بنیں، مگر مسلم لیگ کے اہم رہنما ان کی خانہ زاد سیاست کو غیر جمہوری اور غیر اخلاقی سمجھتے ہیں، اس لیے بعض اہم رہنما ان سے بد ظن ہو گئے ہیں، اگرمیاں نواز شریف نے اپنی سوچ نہ بدلی تو بہت کچھ بدل سکتا ہے، مریم نواز مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر نامزد کی گئیں تو کئی اہم رہنمائوں نے ان کی مخالفت کی تھی، مگر میاں نواز شریف کچھ سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں، ان کی خانہ زاد سیاست وزارت عظمیٰ کو خانہ زاد بنانا چاہتی ہے، جسے بعض مسلم لیگی رہنما غیر جمہوری سوچ سمجھتے ہیں، مگر میاں نواز شریف اپنی غیر جمہوری سوچ پر اڑے ہوئے ہیں، کاش میاں نواز شریف سمجھ سکتے کہ مستقل مزاجی اور ہٹ دھرمی میں فرق ہوتا ہے۔