! اشتہاری مجرم سابق وزیراعظم کی واپسی

730

پاکستان میں 75 سال بعد بھی قانون کی پاسداری پر سوال اٹھتے ہیں، اس لیے کہ یہاں اب تک قانون اور قوانین وہ ہی لوگ توڑتے ہیں جو نہ صرف قوانین بناتے ہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کرانے کے ذمے دار بھی کہلاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، اسلامی اور آئینی دونوں ہی اعتبار سے ہم کو اپنے قوانین کا تحفظ کرنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ لیکن یہاں کبھی ملک بچانے تو کبھی کسی اور بہانے سے آئین اور قانون کا مذاق بنایا جاتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف ایک سابق وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ موجودہ عدالت عظمیٰ سے سزا یافتہ مجرم و اشتہاری ملزم بھی ہیں، وہ 21 اکتوبر کو لندن سے واپس آ گئے ہیں۔ جبکہ پٹرول، بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور شدید مہنگائی سے پریشان حال لوگوں نے ان کا نہ چاہتے ہوئے بھی استقبال کیا کیونکہ ملزم اور مجرم ہونے کے باوجود ان لوگوں کو توقع ہے کہ نواز شریف ان کو درپیش مسائل کا سدباب کریں گے۔

سابق وزیراعظم شہباز شریف نے نواز شریف کی واپسی پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’’نواز شریف قوم کو متحد کرنے کے لیے واپس آ رہے ہیں، مزید تقسیم کرنے کے لیے نہیں، وہ اپنے لوگوں میں نفرت نہیں بلکہ محبت پھیلانے واپس آ رہے ہیں، وہ آپ کو ایک نتیجہ خیز شہری بننے میں مدد کرنے کے لیے واپس آ رہے ہیں، کسی جماعت یا گروہ کے لیے گولہ بارود بنانے کے لیے نہیں، وہ پاکستان کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے واپس آ رہے ہیں‘‘۔ گو کہ شہباز شریف نے اپنی 16 ماہ کی حکومت میں جو ملک کی معاشی حالات کی خرابی کی اسے برا بھی اپنے ماضی کے وزارت عظمیٰ کے تجربات سے بہتر بنائے گا اور ناکام ہوا تو پھر دوبارہ بیمار ہوکر یا علاج کے بہانے سے لندن پہنچ کر آرام کرے گا جبکہ قوم مزید تباہ اور برباد ہوجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایک مجرم اور نااہل رہنما دوبارہ کیسے انتخابات لڑ کر وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے؟ اس سوال کا جواب تو یہی ہے کہ جس طرح ایک مجرم با آسانی ملک سے باہر چلا گیا اور اور چار سال گزار اطمینان کے ساتھ واپس بھی لوٹ آیا اسی طرح وہ با آسانی اپنے آئندہ کے ارادوں کو تکمیل دے گا۔ جس قانون میں نرمی کرکے اشتہاری مجرم کو ملک میں پہنچنے کے باوجود گرفتار نہیں کیا گیا اسی قانون کے تحت آئندہ بھی سب ممکن ہوجائے گا کیونکہ یہ ملک جمہور کا تو ہے مگر عام عوام سے اس کا دور کا واسطہ نہیں ہے۔ یہ ملک دراصل اشرافیہ کا ہے۔ اشرافیہ بھی وہ جب چاہے اقتدار سنبھال لے اور جب چاہے ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ یہ ملک ان امراء کا ہے جو قوانین ہی نہیں بلکہ قوانین بنانے والوں کو خرید لیا کرتے ہیں۔ یہاں اقتدار بھی صرف ان کے ہاتھ لگتا ہے جو ایوان اقتدار کے گھوڑوں کو خریدنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ جس نواز شریف کا ذکر کیا جارہا ہے وہ (نواز شریف) جب 2019 میں علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے تو اس وقت وہ سزا یافتہ تھے اور اسلام آباد کی احتساب عدالت کی طرف سے العزیزیہ اسٹیل ملز کے مقدمے میں بطور قیدی سات سال کی سزا کاٹ رہے تھے۔ اور مسلسل عدم پیشی کی بنا پر اب عدالت انہیں اشتہاری بھی قرار دے چکی تھی۔ چونکہ وہ اس ملک کے ’’اشرافیہِ اوّل‘‘ ہیں تو آئین اور قانون ان کے ہاتھ کا میل ہے جسے وہ جب چاہیں مسل کر جھٹک دیا کرتے ہیں۔