غلام سر نہیں اٹھاتے

482

انگریز بھارت کا حکمران تو بن گیا مگر مسلمانوں کی اکثریت نے اس کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا، یہ صورتحال خاصی پریشان کن تھی کیونکہ مسلمان کسی بھی وقت ان کی حکومت کے خلاف جہاد کر سکتے تھے، اس نے اپنے دانشوروں سے مشورہ کیا کہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے کافی سوچ بچار کے بعد دانشور اس نتیجے پر پہنچے کہ جذبہ جہاد ختم نہیں کیا جاسکتا البتہ کم کیا جاسکتا ہے، انہوں نے اس امکان کا بھی اظہار کیا کہ آنے والی نسلوں کے دل و دماغ سے جہاد کی افادیت ختم ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے ایسے عالم کی ضرورت تھی جو مسلمانوں کو جہاد سے بدظن کر سکے اور یہ باور کرا سکتے کہ فی زمانہ جہاد جنگجوئی ہے، اور اسلام جنگجوئی کے خلاف ہے، اسلام امن کا مذہب ہے، جو مسئلہ مکالمے کے ذریعے حل ہوسکتا ہو اس کے لیے برسر پیکار ہونے کی ضرورت نہیں اس معاملے میں زیادہ تگ و دو بھی کرنا نہیں پڑی، انہوں نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے غلام احمد قادیانی کو اپنا آلہ ِ کار بنایا اس کی چرب زبانی اور انگریز کی مال و دولت نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا اور وہ قادیانیت پر ایمان لے آئے۔

اسرائیل فلسطین کی سرزمین پر مکمل طور پر قابض ہونے کے لیے فلسطینیوں پر جو درندگی کررہا ہے وہ عالم اسلام کے لیے قابل قبول نہیں، بلکہ کسی بھی مہذب ملک کے لیے قابل قبول نہیں امریکا نے اسرائیل کی جنگی قوت کو ناقابل تسخیر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر حماس نے ثابت کر دیا کہ ناقابل تسخیر قوت صرف اللہ کی حاکمیت ہے، زمینی جنگ میں حماس نے اسرائیل کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا ہے، امریکا اور اس کے ہم نوا اس صورتحال کے لیے تیار نہیں تھے وہ فلسطینیوں کے صبر و تحمل کو کمزوری سمجھ بیٹھے تھے، مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ موت سر پر کھڑی ہو تو کمزور سے کمزور جاندار بھی مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

اس وقت حماس تنگ آمد بجنگ آمد کی تصویر بنا ہوا ہے، زمینی جنگ میں پسپا ہونے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کر دی ہے جس میں بہت سے بچے اور خواتین شہید ہو گئی ہیں، مگر انسانیت سے عاری امریکا اور اس کے اتحادی اسے اسرائیل کا حق کہہ رہے ہیں، حالانکہ قابض سے قبضہ چھڑانا ایک ایسا حق ہے جسے ساری دنیا تسلیم کرتی ہے، مگر جب معاملہ مسلمانوں کا ہو تو اپنے مفادات کو مقدم رکھا جاتا ہے۔

بھارت اور اسرائیل جس ظلم و ستم کا مظاہرہ کررہے ہیں، وہ قابل مذمت ہے مگر مسلمانوں سے بغض رکھنے والے اس درندگی کو ان کا حق کہہ رہے ہیں، کیونکہ کمزور کا کوئی حق نہیں ہوتا، اگر عالم اسلام کشمیریوں کا ساتھ دیتا، تو اسرائیل فلسطینیوں پر یہ ظلم کبھی نہ کرتا، ظالم بزدل ہوتا ہے اور بزدل عمل سے پہلے رد عمل پر غور کرتا ہے اسرائیل نے بھی فلسطینیوں پر ظلم سے پہلے رد عمل پر غور کیا اور بھارت کے رویے پر عالم اسلام کی خاموشی کو غنیمت جانا اسے احساس ہو گیا کہ مسلمان جہاد کرنے کے قابل نہیں رہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے، اس ضمن میں یہ سوچنا غلط نہیں ہو گا کہ اسرائیل کی درندگی پر عرب ممالک جہاد کا اعلان کیوں نہیں کرتے، ان کی خاموشی اسرائیل کا حوصلہ بڑھا رہی ہے، اور اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا اسے خانہ کعبہ پر حملہ کرنے پر اکسا سکتا ہے، اس خدشے کا اظہار امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے امت مسلمہ کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لیے بہت مقدس اور قابل احترام ہے، یہ ہماری عزت ہے، عزت پر حملہ ناقابل معافی ہے، امیر جماعت کا یہ کہنا کہ مسلم ممالک کو جہاد کا اعلان کر دینا چاہیے کہ اسرائیل کی درندگی کا واحد حل یہی ہے، مسلمان جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے تو اسرائیل جو فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنا چاہتا ہے خود فلسطینیوں کی سر زمین سے نکل جائے گا۔

امریکا اسرائیل کو ایک خوبصورت لڑکی سمجھتا ہے اس کا حلیہ اس حد تک بگڑ جائے گا کہ کوئی دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا، مگر مشکل یہ ہے کہ قادیانیت نے جہاد کے جذبے کو اتنا سرد کر دیا ہے کہ اسے سرگرم کرنے کے لیے مسلم ممالک کو سرگرم عمل ہونا پڑے گا، مگر المیہ یہ ہے کہ امت مسلمہ دنیا پرست ہو گئی ہے، اور دنیا پرستی دین سے دور کر دیتی ہے، بزرگوں نے سچ ہی کہا ہے کہ غلام سر نہیں اٹھاتے آقا کو سر پر بٹھاتے ہیں، اسلامی ممالک نے بھی امریکا کو سر پر بٹھایا ہوا ہے جو ان کی گردن کو اپنی مرضی کے مطابق موڑتا رہتا ہے۔