اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کیسے اسلام آباد ہائی کورٹ کسی صوبے کے قانون کی تشریح کرسکتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ، بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے قانون کی تشریح نہیں کرسکتی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وفاق کے قانون کی تشریح کوئی بھی ہائی کورٹ کرسکتی ہے۔کوئی ایک کیس بتادیں کہ جس میں سندھ کا معاملہ ہو اوراس کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا ہو۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگر ہم فیصلہ کرتے ہیں تویہ ایک نظیر بن جائے گی، ایم /ایس سپرنٹ آئل اینڈ گیس سروسز پاکستان ایف زیڈ سی، اسلام آباد وہ کام ہم سے بلاواسطہ کروانا چاہ رہی ہے جو ہم براہ راست نہیں کرنا چاہتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ایم /ایس سپرنٹ آئل اینڈ گیس سروسز پاکستان ایف زیڈ سی، اسلام آبادکی جانب سے آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لیمٹڈ (اوجی ڈی سی ایل)، اسلام آباد کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
کیس کا فیصلہ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ نے کیا تھا جبکہ بعدازاں دورکنی بینچ نے کیا تھا جس کے خلاف مدعا علیہ کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد احمد قیوم جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے خرم ممتاز ہاشمی بطور وکیل پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل نے معزز بینچ کہہ کر مخاطب کیا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بینچز معزز ہو سکتے ہیں یہ توانگلش زبان کا دلچسپ استعمال ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں پارلیمنٹرینز کو معزز کہا جاتا ہے نہ کی پارلیمنٹ کو معزز کہا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم غلط ہیں توہمیں ٹھیک کردیں کیونکہ ہم توروزانہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے رہتے ہیں۔
درخواست گزارکمپنی کے وکیل محمد احمد قیوم کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی کا دفتر اسلام آباد میں ہے اور اوجی ڈی سی ایل کے ساتھ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے حوالہ سے دومعاہدے بھی اسلام آباد میں ہی 2013میں ہوئے اس لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بنتا ہے، جس وقت او جی ڈی سی ایل کے ساتھ معاہدے ہوئے اس وقت دونوں صوبوں میں سرسز پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کے حوالہ سے قانون موجود نہیں تھا تاہم بعدازاں دونوں صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے قانون پاس کی گا۔
کمپنی کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس حوالہ سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں قانون پہلے سے موجود تھے۔ ۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیسے اسلام آباد ہائی کورٹ کسی صوبے کے حوالہ سے قانون کی تشریح کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حدود کا تعین بنیادی مسئلہ ہے۔
درخواست گزار کمپنی کے وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے او جی ڈی سی ایل کے خلاف رٹ ایشو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے صوبوں میں سروسز پر سیلز ٹیکس نہیں تھا اور بعد میں صوبوں نے قانون سازی کے زریعہ سروسز پر سیلز ٹیکس کا نفاذ کردیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ لکھواتے ہوئے کہ 2010میں 18ویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ وجود میں آئی۔ درخواست گزاراسلام آباد میں کام نہیں کررہا اور نہ ہی اس پر وفاقی قانون لاگوہوتا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو اسی تنہا بنیاد پر ہی رٹ پیٹیشن نہیں سننی چاہیئے تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کے میرٹس پر جائے بغیر اسلام آبادہائی کورٹ کو درخواست نہیں سننی چاہیئے تھی۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیئے گئے دونوں فیصلے کالعدم قراردیتے ہوئے کہا کہ جو معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا وہ انہیں نہیں سننا چاہیئے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کمپنی کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچانے کے لئے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا آپشن کھلا رکھ رہے ہیں۔ عدالت نے درخواست نمٹا دی۔