روزی روٹی سے موت تک

856

اے ابن آدم ہمارے معاشرے میں اس وقت ہر طرف مایوسی نظر آتی ہے۔ دولت مند خوش ہیں مگر 98 فی صد غریب اور سفید پوش گھرانوں میں مایوسی نے قدم جمالیے ہیں، اس وقت حالت یہ ہے کہ اگر کسی غریب کے گھر موت ہوجائے تو اُس کے پاس آخری رسوم تک کے لیے پیسے نہیں ہوتے، اُدھار قرض لے کر تجہیز و تدفین کی جاتی ہے۔ نیو کراچی 5G جہاں میرا ہومیوپیتھک کا پرانا کلینک تھا وہاں ایک اُستانی جی رہتی تھیں وہ بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں اُن کی 3 بیٹیاں اور ایک بیٹا ریحان تھا جو تعلیم یافتہ تھا، اُن کی چھوٹی بیٹی جس کی عمر 22 سال تھی غیر شادی شدہ تھی اور ہومیوپیتھی کی تعلیم حاصل کررہی تھی۔ ایک ایسی بیٹی جو ماں کی خدمت کرتی اُن کا خیال رکھتی، ایک دن جب میں اپنا کلینک کھول رہا تھا تو مجھے اطلاع ملی کہ استانی جی کی چھوٹی بیٹی ہما کا انتقال ہوگیا، میں نے جا کر تعزیت کی اس کے بعد ان کی ایک اور بیٹی جو شادی شدہ تھی اس کے شوہر کا اچانک انتقال ہوگیا اس نے محنت مزدوری شروع کرکے اپنے بچوں کو پالنا شروع کردیا۔ استانی جی کا نوجوان بیٹا جو ملازمت کرتا تھا اس کی نوکری ختم ہوگئی، وہ لڑکا 5 وقت کا نمازی تھا نوکری جانے کے غم سے اس کو نفسیاتی مرض پیدا ہوگیا اس نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا بس ایک کمرے میں تنہا رہتا تھا۔ استانی جی ایک دن سندھی ہوٹل سے گھر آرہی تھیں ایک گاڑی نے ان کو ٹکر مار دی اور ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی، عمر زیادہ تھی اور وسائل پاس نہیں تھے لہٰذا 6 ماہ تک بیڈ پر پڑی رہیں، بیوہ بیٹی گھر آکر کام کرکے چلی جاتی، پھر انہوں نے مجھے بلایا میں ان کے گھر گیا تو استانی جی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میرے پاس وسائل نہیں ہیں آپ میرا علاج کردیں۔ میں نے کہا کہ ایک شرط پر علاج کروں گا کہ میں آپ سے کوئی پیسے نہیں لوں گا۔ میں خود جا کر ایک ہفتہ کی دوا ان کو گھر دے کر آتا اللہ کے کرم سے استانی جی اپنے پیروں پر کھڑی تو ہوگئی مگر چلنے پھرنے میں تکلیف ہوتی تو اسٹل کا ایک واکر ان کو لا کر دیا جس کی مدد سے وہ چلتی ہیں۔ ان کے شوہر بھی بہت بیمار رہتے ہیں گھر کے اندر استانی جی نے ایک چھوٹی سی دکان کھول لی ہے۔
اللہ کا بھی کیا نظام ہے 13 اکتوبر کو استانی جی کا بیٹا اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اہل محلہ اور تحریک ابن آدم نے اس کی تجہیز و تدفین کے انتظامات کیے۔ محمد محسن صاحب جو میرے استاد ہیں اس طرح کے فلاحی کاموں میں میرا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم میرے گرین وڈ اسکول کے سینئر جاوید بھائی بھی فلاحی کاموں میں میرا ساتھ دیتے ہیں۔ میں جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے الخدمت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس طرح کے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک پیکیج جاری کرے کہ جو غریب قبر اور تجہیز و تدفین کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا اُس کو یہ تمام سہولتیں مفت فراہم کی جائیں۔ میں نے تو خود وادیِ ابن آدم کے نام سے مفت قبرستان بنانے کا ارادہ کر رکھا ہے جس دن مجھے کوئی مخیر انسان مل گیا میں فری قبرستان کے ساتھ ایک بڑا فری اسپتال اور یتیم خانہ بھی بنا کر دنیا سے جائوں گا۔ یہ میری اللہ سے دعا ہے۔
آج کل کراچی میں چنگ چی رکشے دوڑ رہے ہیں اس کو زیادہ تر پنجاب کے کم عمر لڑکے چلا رہے ہیں، یہ سارے رکشے غیر قانونی ہیں ان کو یہ رکشے چلانے کی اجازت کس نے دی
ہے، کیا ان کے لیے کوئی قانون نہیں ہے اپنی مرضی سے یہ کرایہ وصول کرتے ہیں کم سے کم ایک اسٹاپ کا کرایہ 30 روپے دو اسٹاپ 40 روپے، 3 سے 4 اسٹاپ 50 سے 60 روپے اور آخری اسٹاپ کا کرایہ 150 روپے، جبکہ گرین اور لال بسوں کا کرایہ جو AC بسیں ہیں 50 روپے ہے، کوئی ٹریفک پولیس والا چنگ چی کو نہیں روکتا نہ ہی ان کا چالان کیا جاتا ہے۔ میں نے ایک چنگ چی کے مالک سے پوچھا کہ یہ کیا چکر ہے تو پتا چلا ہر روٹ پر چلنے والی یہ چنگ چی کے مالک یا تو خود پولیس والے ہیں یا وہ پابندی سے ٹریفک پولیس چوکی پر بھتہ جس کا نام انہوں نے ہفتہ رکھا ہے وہ دیتے ہیں۔ آپ یقین کریں میں روز روڈ پر کوئی نہ کوئی حادثہ دیکھتا ہوں جس کے ذمے دار یہ نااہل چنگ چی چلانے والے ہیں، ابھی 3 روز پہلے کی بات ہے 2 چنگ چی رکشے ناگن پل سے لڑتے ہوئے آرہے تھے پل اُترتے ہی دونوں نے ایک دوسرے کو اوور ٹیک کیا تو یہ رکشہ پلٹ گیا، رکشہ ڈرائیور کے ساتھ آگے دو مردوں کے بیٹھنے کی ناجائز جگہ بنائی ہوئی ہے جیسے ہی رکشہ پلٹا میں اور کچھ لوگ حادثے کی جگہ پر بھاگ کر گئے جو رکشہ کے ڈرائیور کے ساتھ غیر قانونی جگہ پر بیٹھا تھا اُن کا پائوں اُسی وقت ٹوٹ گیا۔ ایک خاتون بُری طرح زخمی ہوگئیں، ڈرائیور کو معمولی خراش آئی، زخمیوں کو اسپتال ایمبولینس لے کر چلی گئی۔ یہ روز کا معمول ہے مگر افسوس کراچی شہر میں جنگل کا قانون چل رہا ہے ہر ادارہ کرپشن زدہ ہے ٹریفک پولیس کا شہر میں نام و نشان نظر نہیں آتا میں روزانہ شام کو واٹر پمپ سے سلیم سینٹر اپنے گھر آتا ہوں مگر مجھے ایک بھی ٹریفک پولیس والا نظر نہیں آتا ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے،
روز شام کو نیو کراچی 5 نمبر اور سندھی ہوٹل نیو کراچی میں اس قدر ٹریفک جام ہوتی ہے مگر ایک ٹریفک پولیس والا نہیں ہوتا، ایسا لگتا ہے محرم کے جلسوں، مجلسوں اور ربیع الاوّل کے جلوسوں کے بعد یہ سب تھک جاتے ہیں۔ کراچی کے نام پر کمانے والے لیڈر کہاں ہیں، ہزاروں تعلیم یافتہ اردو بولنے والے نوجوان فوڈ پانڈا یا رائیڈر کی نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔
آج قوم بھوکی مر رہی ہے، روزگار ختم ہوچکا ہے، پانی نہیں، بجلی اتنی مہنگی کے مزدور کی آدھی تنخواہ کھا جاتی ہے۔ اب تو گیس کو بھی مہنگا کرنے کی حکومت نے نوید سنا دی ہے۔ ڈالر کے ریٹ روز کم ہورہے ہیں مگر مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ نواز شریف، زرداری اور عمران خان نے قوم کو مل کر تباہ کیا ہے۔ عوام نے ان لیڈروں کے لیے کتنی قربانی دی، مہاجروں نے ایم کیو ایم پر اپنا سب کچھ لٹا دیا مگر بدلے میں کیا ملا موت، مسائل، بے روزگاری۔ ابھی بھی وقت ہے قوم کے پاس اب صرف ایک ہی آپشن ہے مسائل سے نجات حاصل کرنے کا اور وہ واحد جماعت ہے جماعت اسلامی۔ جس میں امیر سے لے کر نچلی سطح تک آپ کو کوئی کرپٹ نظر نہیں آئے گا اگر اس مرتبہ الیکشن میں قوم نے جماعت اسلامی کو موقع دیا تو ملک سے کرپشن کا تو خاتمہ ہو ہی جائے گا۔ اے ابن آدم کبھی دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا کہ تم نے تمام سیاسی جماعتوں کو آزمایا مگر تم کو کیا ملا سوائے بھوک و افلاس کے، بے روزگاری کے، قدم قدم پر مافیا ملک کے ہر شعبے میں مافیا اگر ان چیزوں سے میری قوم تم کو آزاد ہونا ہے تو ابن آدم کے مشورے پر عمل کرو اور آنے والے الیکشن میں جماعت اسلامی کے امیدواروں سے ملک کی پارلیمنٹ کو بھر دو، اگر تمہارے مسائل حل نہ ہو تو مجھے کہنا۔ پاکستان کی واحد سیاسی، سماجی، مذہبی جماعت جو آئین پاکستان کی ہر شق پر پورا اترتی ہے۔