فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کا محاصرہ روز بروز تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی طیارے فاسفورس بم برسا رہے ہیں تو دوسری جانب غزہ میں بجلی، گیس، خوراک، ایندھن، ادویات کی سپلائی مکمل طور پر بند ہے۔ امریکا نے اپنا فوجی بیٹرہ بھی پہنچا دیا ہے اور کھلم کھلا اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہوگیا ہے۔ فلسطین کے نہتے مجاہد طویل عرصے سے غلیل اور پتھر سے ان ظالموں کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن ایمان کے مقابلے میں ٹیکنالوجی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جوں جوں جنگ کا اگلا مرحلہ قریب آرہا ہے دنیا بھر میں اضطراب کی کیفیت طاری ہورہی ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ تیسری جنگ عظیم اب قریب آپہنچی ہے۔ دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں اور فلسطینیوں اور اہل غزہ سے یکجہتی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ دنیا لبیک یاغزہ اور لبیک یااقصیٰ کے نعروں سے گونج اٹھی ہے۔ امریکا، لندن، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا، امارات، بنگلا دیش اور پاکستان میں بھی بڑے بڑے احتجاجی مارچ برپا کیے جارہے ہیں جس میں مسلمانوں کے علاوہ، عیسائی اور یہودی بھی بڑی تعداد میں شرکت کرکے اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
اتوار کو کراچی کی شاہراہ فیصل پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی قیادت میں عظیم الشان ’’فلسطین مارچ‘‘ منعقد ہوا اور نرسری اسٹاپ سے بلوچ کالونی پل تک عوام کا سمندر امڈ آیا۔ لاکھوں کی تعداد میں مرد، خواتین، بزرگ، بچے، طلبہ، مزدور سب فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور ایک بار پھر اہل کراچی نے ثابت کیا کہ کراچی امت مسلمہ کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ کراچی کی شاہراہ فیصل پر لگنے والے فلک شگاف نعرے ’’لبیک یا غزہ، لبیک یااقصیٰ‘‘ کی گونج اسلام آباد ہی نہیں بلکہ واشنگٹن اور تل ابیب تک جا پہنچی ہیں اور دنیا کو یہ پیغام پہنچ گیا ہے کہ نہتے فلسطینی تنہا نہیں ہیں۔ مسلم امہ کہ بے حمیت حکمراں اگر آج بزدلی دکھا رہے ہیں اور خالی بیان بازی کر رہے ہیں لیکن پوری امت آج فلسطینیوں کی پشت پر آکھڑی ہوئی ہے۔ امریکا کا بحری بیڑہ اور کوئی ٹیکنالوجی اہل ایمان کو شکست نہیں دے سکتی ہے۔ دنیا نے افغانستان میں ٹیکنالوجی کا حشر دیکھ لیا ہے۔ ناٹو فورسز نے کون سا بم ہے جو افغانوں پر نہیں برسایا لیکن آخر میں امریکا اپنی ناک رگڑتا ہوا ذلت کے ساتھ افغانستان سے بھاگا۔ آج اہل غزہ ظلم اور درندگی کا شکار ہیں۔غزہ میں انسانیت مر چکی ہے نہتے لوگوں پر حملے کیے جارہے ہیں معصوم بچوں، خواتین کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔ اسپتال خالی کرائے جارہے ہیں اور مریضوں کو زندہ درگور کردیا گیا ہے۔ عالم اسلام کے حکمران غزہ کو ملبے کا ڈھیر بننے کا انتظار کر رہے ہیں، ان میں اتنا دم اور ہمت بھی نہیں کہ وہ امت کی آواز اٹھائیں۔
اسرائیل نے گزشتہ 16سال سے غزہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے اقوام متحدہ اب تک ایک ہزار سے زائد مرتبہ اسرائیل کی جارحیت اور ظلم کے خلاف قرار دادیں منظور کر چکی ہے لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے حماس نے روز روز اپنے مسلمان بھائیوں کی شہادتوں اور ظلم پر اسرائیل کو جواب دیا ہے۔ پوری دنیا فلسطین کے مسلمانوں اور حماس کے مجاہدین کی جدوجہد اور تحریک مزاحمت کو سلام پیش کرتی ہے۔ حماس کی یہ مزاحمت اقوام متحدہ کے چارٹر اور جینوا قراردادوں کے مطابق ہے۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی مسجد ہے مسلمان مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ حماس کے مجاہد صہیونیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ فلسطینی کسی بھی قیمت پر اسرائیل کے ناپاک وجود اور ناجائز ریاست کو قبول نہیں کریں گے۔ مغرب کی بھی عجیب دورنگی ہے اگر ہولو کاسٹ پر بات کی جائے تو اس پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور فلسطین پر بات کی جائے تو سوشل میڈیا اور فیس بک پراس کا پیج بند کردیا جاتا ہے۔
جنرل راحیل شریف کی قیادت میں 34اسلامی ممالک کا اتحاد اور اس کی فوج ایسے حالات میں نجانے کہاں منہ چھپائے بیٹھی ہے اور ان میں ہمت جرأت نہیں کہ وہ فلسطینی بھائیوں کا کھل کر ساتھ دے سکے۔ آج غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بے گناہ شہریوں، خواتین، معصوم بچوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی جارہی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کا انخلا کا مطالبہ بین الاقوامی طور پر غیرقانونی اور کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے کہا کہ یہ وقت چین جانے کا نہیں ہے آپ فوری طور پر فلسطین جائیں اور غزہ کے مجاہدوں کی عملی مدد کریں۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا آج 76سال سے فلسطین کے مسلمان صہیونیوں کے ساتھ نبردآزما ہیں ایسے میں امت مسلمہ کے حکمرانوں کو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کے بجائے فلسطینی بھائیوں کی عملی مدد کرنا چاہیے اور مسلم حکمرانوں کو اپنی بے حسی ختم کرنا ہوگی۔ عرب ممالک کے حکمراں اس غلط فہمی نہ رہیں کہ امریکا سے بہتر تعلقات استوار کر کے وہ اپنی بادشاہت بچا لیں گے۔
حماس کا اسرائیل پر چڑھائی امت کی بیداری کا ثبوت ہے جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار حماس کے مجاہدین اسرائیل کی قابض سرحدوں میں گھسے ہیں یہ بڑے ایمان کی بات ہے اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں بیداری کی ایک لہر آئی ہے۔ حماس نے جس انداز میں اسرائیل کے ناقابل شکست دفاعی حصار کو توڑ کر ان کے گھر میں گھس کر انہیں ذلت ورسوائی سے دوچار کیا ہے اور حماس کے مجاہدوں نے اپنی ایمانی قوت کے ذریعے جنگ بدر کے 313 مجاہدین کی یاد کو تازہ کیا ہے وہ ایک معجزہ سے کم نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’نکلو اللہ کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل‘‘۔
کراچی میں ہونے والے فلسطین مارچ نے بے شک امت کو ایک نئی طاقت اور قوت فراہم کی ہے۔ کراچی کے عوام جس جوش اور جذبے کے ساتھ اس مارچ کے لیے اپنے گھروں سے نکلے خاص طور پر خواتین مائوں اور بہنوں نے ایک تاریخ رقم کی وہ ناقابل بیان ہے۔ دنیا بھر میں فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ہونے والے مظاہروں سے امت مسلمہ میں بیداری کا عنصر جاگ چکا ہے۔ آج پوری دنیا میں حماس اور فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ اسرائیل کی حمایت میں ایک نہیں سو امریکا بھی آجائیں تو جذبہ جہاد اور شوق ِ شہادت کو دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی شکست نہیں دے سکتی ہے۔ امریکا ہوش کہ ناخن لے اور اسرائیل کی پشت پناہی چھوڑ دے ورنہ اس کی یہ ہٹ دھرمی دنیا کو تیسری عالمی جنگ عظیم کی بھینٹ چڑھانے سے نہیں روک سکے گی۔ دنیا کو مسئلہ فلسطین کی وجہ سے آج تیسری جنگ عظیم کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ مسلمان اب قبلہ اوّل اور بیت المقدس کو آزاد کرا کرہی دم لیں گے۔ لبیک یا اقصیٰ اور لبیک یا غزہ کے نعرے اب پوری دنیا میں گونجیں گے اور اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا۔