چالیس اسلامی ممالک کی بے حس افواج

954

آج پوری اْمت مسلمہ بشمول 40 اسلامی ملکوں کی افواج اور اس کے سپہ سالار جناب راحیل شریف کی خاموشی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ جب مسلم ممالک کی افواج کو فلسطینی مسلمانوں کی فکر نہیں تو غیر کیوں آنسو بہائیں آخر یہ 40 ملکوں کی فوج بنائی ہی کیوں تھی؟ اس کا ایجنڈہ کیا تھا؟ ان کی ذمے داریاں کیا تھیں؟ کیا صرف نئی نئی واردیاں پہن کر دْنیا کی آسائشوں کو حاصل کر کے سینوں پے تمغہ لگا کر حکمرانوں کو سلوٹ مارنے کے لیے بنی تھیں اگر فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کو اپنی قوت اور طاقت سے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، اگر یہ جذبہ ٔ جہاد سے نہ آشنا تھے، اگر یہ مظلوم فلسطینیوں کی پکار پر ایک قدم بھی نہ بڑھا سکے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اسلامی ممالک کے وسائل پر قبضہ کر کے لاکھوں ڈالر کی تنخواہ اور نفسانی آرام و راحت کے مزے لوٹ رہے ہیں، تم سے بہتر تو میری فلسطینی مائوں بہنوں کے وہ پتھر ہیں جو وہ اسرائیل فوج پر برسا رہی ہیں کم از کم وہ دشمن کے خلاف استعمال تو ہو رہا ہے، تمہارے میزائیل زنگ آلود ہو گئے، تو پھر ایسی فوج اور ایسے حکمران خود خدا کے قہر و غضب کو دعوت نہیں دے رہے تو اور کیا کر رہے ہیں۔

پھر ایسی فوج کی کیا ضرورت کہ جس کے سپہ سالار نے ایک دن بھی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیل کو اس ظلم و درندگی پر کوئی واضح پیغام نہ دیا ہو، اور اس 40 مسلم ممالک کی فوج میں کوئی ایسا غیور اور مجاہد سپاہی نہیں جو شوق شہادت سے سرشار ہو، جس نے فلسطینیوں کے لیے آواز اْٹھائی ہو مگر جس فوج کا سپہ سالار ہی ایسا ہو اْس کے سپاہیوں سے آپ کیا اْمید رکھیں گے۔ خونِ فلسطینیوں سے کھیلے جانے والے ظلم و درندگی سے آج چنگیز خان کا ظلم بھی شرما تا ہے، اگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کے دل میں ذرا بھی خوف خْدا ہوتا تو یوں یہ خاموش تماشائی نہ بنے ہوتے، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی لا تعداد شہادتوں پر اور ان کے جسموں سے بہنے والے پاکیزہ لہو اور معصوم بچوں کی کرب ناک صدائیں سْنائی دیتیں جو رو رو کر ہمیں پکارتی ہیں، کہ مسلم حکمرانوں ہمیں ان صہیونیوں کے ظلم سے بچا لو کیا ان بچوں کی سسکیوں اور آہوں پر لبیک کہنے والا کوئی ہے؟ اگر نہیں تو یہ اْمت مسلمہ کے حکمراں نہیں بلکہ اْمت مسلمہ کے مجرم ہیں۔

اسرائیلی فوج غزہ میں کس قدر ظلم و درندگی کا مظاہرہ کر رہی ہے پوری پوری آبادیوں پر اور کئی کئی منزلہ عمارتوں پر بم برسا کر زمین بوس کر رہی ہے، ہزاروں لوگ اس درندگی سے منٹوں میں لقمہ اجل بن گئے، معصوم بچے اور بچیاں پھول جیسے بدن روز منوں ملبہ میں دب کر اپنے رب سے جا ملے، مائوں، بیٹیوں اور پھول سے معصوم بچوں پر اسرائیلیوں نے ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں مگر ہمارے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیا ہم اسلام کے بد ترین دْشمنوں کے اتحادی بن گئے ہیں؟ وہ کلمہ گو مسلمانوں کی بستیاں کی بستیاں اْجاڑ دیں اور پوری دنیا کے مسلم حکمراں جنت کے حقدار کا سرٹیفکیٹ اپنے گلے میں ڈالے تماشا دیکھ رہے ہیں، آج سارے یہود و ہنود توحید کے دشمن متحد ہیں اور مسلم حکمران ہمیشہ کی طرح آج بھی منتشر نظرآتے ہیں، جس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکا حماس کو اس کا ذمے دار قرار دیتا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف مسلم حکمرانوں کی بے حسی نہیں تو اور کیا ہے، یہ بات یاد رکھیں کہ مذمتی بیان اور مظاہروں سے آپ اسرائیلیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اس وقت اسرائیل کے جْرم کی مذمت نہیں مزاحمت درکار ہے، جس کا واحد حل جہاد ہے، جس کو ہم بھْلا بیٹھیں ہیں، ہم کب اپنے دْشمنوں کو پہچانے گے! ہم کب تک اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے! کیا یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے؟ مسلم ممالک کی آبادی 2 ارب سے کہیں زیادہ ہے 56 آزاد اسلامی ممالک اور عرب حکمران جن کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے ان کی بے حسی اور خاموشی اسرائیل کے مظالم سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے۔ 22 عرب ممالک کی طرف سے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف دی جانے والی قرار داد کو امریکا اور برطانیہ آسانی سے مْسترد کر دیتے ہیں، مگر عرب ممالک صرف خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں۔ آگر ان میں ذرا سی بھی غیرت و حمیت ہوتی تو یہ سارے مْتحد ہو کر اقوام متحدہ کی رْکنیت سے استعفا دے دیتے جس سے اسرائیل کو مسلم حکمرانوں کے متحد ہونے کا پیغام ملتا، جس سے فلسطینی مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوتے، ابھی بھی وقت ہے اْمت مسلمہ متحد ہو جائے اور اغیار پر اعتبا ر کرنا چھوڑ دے اور تمام صہیونی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں، تو پھر دیکھیے گا میرا رب آپ کی کیسے مدد کرے گا مگر شرط یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی افواج کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا پڑے گا تاکہ فلسطین کے عوام کو جنگی اور معاشرتی مصائب سے فوری نجات دلائی جا سکے، میرے آقاؐ کا ارشاد ہے کہ مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے آگر جسم کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم درد کرتا ہے، تو پھر اس حدیث مبارک کی روشنی میں سوچیں کیا ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے درد میں شریک ہیں؟؟