طوفان الاقصیٰ اور نمائشی تلواریں

1021

طوفان الاقصیٰ آپریشن نے واقعی اسرائیل میں طوفان برپا کردیا۔ اسرائیلی حکومت بوکھلا گئی، دنیا کی بہترین دفاعی صلاحیت رکھنے کا دعویٰ کرنے والی اسرائیلی حکومت حماس کے راکٹ حملوں کو روکنے میں بُری طرح ناکام ہوئی۔ اس کا مشہور زمانہ آئرن ڈوم جس کو اسرائیل کے دفاع میں بنیادی حیثیت دی گئی تھی کہا گیا تھا کہ اب اسرائیل ناقابل شکست ہوگیا ہے۔ اسی آئرن ڈوم کو لے کر اسرائیل نے دنیا سے بڑے دفاعی سودے حاصل کیے تھے۔ اُس کی قلعی حماس کے جانبازوں نے کھول کر رکھ دی۔ ایک طرف یہ اسرائیل پر حماس کے راکٹ حملے روکنے میں ناکام ہوا دوسری طرف جن حملوں کو روکنے میں کامیاب بھی ہوا ہے اس میں بھی وہ اسرائیل کے لیے ایک بڑا معاشی حملہ ہی ثابت ہوا ہے۔ اسرائیلی انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز کے مطابق ایک راکٹ کو روکنے کی قیمت تقریباً چالیس سے پچاس ہزار ڈالر کے درمیان پڑتی ہے۔ اب سوچیں کہ حماس کی طرف سے جو ہزاروں راکٹ فائر کیے گئے جن میں سے کچھ ہزار آئرن ڈوم سسٹم نے روکے ہوں گے تو اُسے اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہوگی۔ مزید بات بھی حیران کن ہے کہ اس حملے کے حوالے سے اسرائیلی انٹیلی جنس مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ مصر کی انٹیلی جنس نے اگرچہ اس معاملے میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ ’’کچھ بڑا حادثہ ہونے والا ہے‘‘ لیکن اسرائیل نے اس نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا۔
1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی جدوجہد میں یہ پہلا براہِ راست تنازع ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف حملے کا آغاز کیا۔ مجاہدین موٹر گلائیڈر موٹر سائیکل گاڑیوں اور اسپیڈبوٹ کے ذریعے اسرائیل پر سمندر، زمین اور فضا کے راستے سے داخل ہوگئے۔ اس جنگ میں اب تک بڑے پیمانے پر اسرائیل کا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب کئی شہروں پر قبضہ کرلیا۔ اسرائیل نے حماس سے بدلا لینے کا اعلان کیا ہے۔ غزہ پر مسلسل بمباری کے ساتھ پانی، بجلی اور ایندھن بھی بند کردیا ہے۔ غزہ پر ہزاروں ٹن بارود گرانے کے ساتھ اسرائیل ممنوع فاسفورس بم استعمال کررہا ہے۔ یہ ممنوع بم زمین پر وسیع علاقے میں آگ بھڑکاتا ہے۔ اس سے انسانی پٹھے اور ہڈیاں بھی جلا ڈالتا ہے۔ غزہ میں بمباری اس شدت سے کی گئی ہے کہ لاکھوں لوگ متاثر ہوئے بقول اقوام متحدہ دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کی سرحد پر کئی لاکھ فوجیوں کو جمع کردیا ہے۔ غزہ میں بمباری سے بچے اور عورتیں بھی شہید ہوئے ہیں۔ غزہ کے وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں پانچ ہزار ایک سو لوگ زخمی ہوئے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ زخمی ہونے والوں میں سے ساٹھ فی صد عورتیں اور بچے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے شہریوں کے تحفظ کے لیے حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ غزہ کا حال یہ ہے کہ وہاں کے اسپتال زخمیوں سے بھر گئے ہیں اور دوائیں اور غذائیں سامان پر اسرائیلی ناکہ ہے۔ ریڈ کراس کہہ رہی ہے کہ صورت حال یہ ہے کہ وہاں اسپتال مردہ خانوں میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہے۔
اسرائیل کی حمایت، امداد اور تائید میں امریکی حکومت نے ایک منٹ کی تاخیر نہیں کی۔ بھارت نے حماس کے حملوں کے چند گھنٹوں کے اندر اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا واضح اعلان کیا۔ حالاں کہ یہ بھارت کی دہائیوں پر مبنی مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں کے خلاف تھا۔ لیکن مسلم ممالک کئی دنوں تک گومگو کی حالت میں رہے۔ پھر جب بولے بھی تو دونوں طرف کے لوگوں کو تحمل اور صبر کی تلقین ہی کرتے سنے گئے۔ حالاں کہ فلسطینیوں کو صبر کی تلقین کیا معنی رکھتی ہے وہ تو عشروں سے اسرائیلی مظالم اور زیادتیاں برداشت کررہے ہیں۔ اس وقت اسلامی ممالک کو اس سلسلے میں مکمل فلسطینی حمایت میں سامنے آنا چاہیے۔ غزہ کی ناکہ بندی کے خلاف اس کی بھرپور امداد کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عالمی ادارے نے بھی علاقے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے لیے راہداری بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلامی ممالک کو اس سلسلے میں ہر طرح کی عملی کوششیں کرنا چاہئیں۔ فوری امداد غزہ کے شہریوں تک پہنچنا چاہیے۔ اس موقع پر سوال اُس مسلم ممالک کی مشترکہ فورس پر بھی اُٹھتا ہے جو کچھ سال قبل سعودی عرب میں بنائی گئی تھی اور جس کے پہلے سربراہ پاکستان سے منتخب ہونے والے راحیل شریف تھے۔ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ غزہ پر بدترین مظالم ہوئے اور ہورہے ہیں اور نہ جانے آگے وہاں اسرائیل کیا کر ڈالے۔ اس مشترکہ فوج کے کمانڈر کی طرف سے تو ایک بیان تک نہیں آیا۔ یعنی انہوں نے لب تک نہیں کھولے۔ ایسی مشترکہ مسلم ممالک کی فوج کا کمانڈر کیا صرف ناچتے ہوئے نمائشی تلوار لہرانے کے لیے ہے۔ کم از کم کوئی ولولہ انگیز قسم کا بیان ہی تلوار لہراتے ہوئے دے ڈالتے۔