’’دانایان‘‘ دانا کی جمع ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’عقل مند، دانش مند، صاحبِ فہم وفراست‘‘ اور ’’رُوزگار‘‘ کے معنی ہیں: ’’زمانہ‘‘، یعنی اپنے عہد کے عقل مند، دانش مند اور صاحبانِ فہم وفراست۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک شدید ترین معاشی مشکلات سے دوچار ہے، منہگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، زیریں طبقات تو درکنار، متوسط طبقات کے لیے بھی گزر اوقات دشوار ہے، بجلی اور گیس کے ہوش ربا بلوں کے ساتھ ساتھ اشیائے صَرف کی قیمتیں بھی آسمانوں کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ دینی مدارس وجامعات اور مساجد کے لیے بھی اپنے عملے کی تنخواہیں، طلبہ کے مصارف، یوٹیلیٹی بل اور دیگر مصارفِ ضروریہ کا پورا ہونا دشوار ہے اور بظاہر مستقبلِ قریب میں منہگائی کے اس عفریت سے نجات کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
جو ماہرینِ معیشت ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر یا اخبارات میں اس مسئلے پر ماہرانہ رائے دیتے ہیں، وہ بھی زیادہ زور مرض کی نشاندہی پر لگاتے ہیں، مرض کا کوئی فوری، سریع العمل (Speedy) اور دیرپا علاج کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ اُس کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں عوامی سطح پر اجتماعات کر کے اور احتجاجی دھرنے دے کر اس مسئلے کو اجاگر کر رہی ہیں، اس حد تک یہ اچھی بات ہے، لیکن موجودہ اور سابق حکمرانوں کو کوسنے کے بجائے وہ بھی کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل حل تجویز کرنے سے قاصر ہیں۔ میں نے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں جماعتِ اسلامی کا منشور پڑھا، اس میں تصوراتی (Ideal) باتیں تو بہت ہیں، لیکن اُن کو موجودہ صورتِ حال پر منطبق کرنا آسان نہیں ہے۔ پس لازم ہے: ’’سب سے پہلے اس بات کا ادراک کیا جائے کہ ملک اقتصادی اعتبار سے کہاں کھڑا ہے‘‘، اس کی ذمے داری جس پر بھی ڈالنی ہو، ضرور ڈالیں، سو یہ سارے کوسنے عوام کی داد وتحسین کی حد تک تو ٹھیک ہیں، مگر ملک کی گاڑی کو لے کر آگے کیسے چلایا جائے، اس کا عملی حل بھی درکار ہے۔
یہاں تو حال یہ ہے: سب سے زیادہ مراعات پانے والے صدرِ پاکستان نے اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ بھی کہ اُسے مؤثر بہ ماضی (Retrospective) بناکر بقایا جات بھی ادا کیے جائیں۔ یہی حال اعلیٰ عدلیہ کے عالی مرتبت جج صاحبان کا ہے، حکومتِ پنجاب نے بارہ ججوں کے لیے تین کروڑ روپے فی کس کے حساب سے چھتیس کروڑ روپے بلاسود قرض کی منظوری دی ہے، سود کی حرمت سے قطع نظر موجودہ شرحِ سود بائیس فی صد ہے اور تین کروڑ روپے پر سالانہ چھیاسٹھ لاکھ روپے بنتے ہیں، گویا اُن کی ساڑھے پانچ لاکھ روپے ماہانہ اضافی تنخواہ ہوجائے گی، الغرض نوازنے اور نوازشات حاصل کرنے کی خوش نما صورتیں وضع کردی جاتی ہیں۔
اپنے وسائل کے اندر رہنے کی عادت ہم بھول چکے ہیں، چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے والا محاورہ ہماری قومی اقتصادیات میں فرسودہ ہوچکا ہے، رواں مالی سال کے میزانیے کی آمد وخرچ کے تخمینے میں پانچ ہزار ارب روپے کا فرق ہے اور کسی کو نہیں معلوم یہ کہاں سے آئے گا، سوائے اس کے کہ مزید قرض لیا جائے۔ نیز ہر سالانہ بجٹ کے موقع پر آئندہ سال کے میزانیے کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال کے اضافی اخراجات کی مابعد منظوری کے لیے ضمنی بجٹ پیش کیے جاتے ہیں، یعنی سال کے لیے مختلف شعبہ جات میں اخراجات کی جو حد مقرر کی گئی تھی، ہم اس سے آگے نکل جاتے ہیں۔
دوسرا حل یہ ہے کہ آمدنی بڑھائی جائے، اس کا آسان حل ہماری حکومت کے پاس یہ ہوتا ہے کہ بجلی، گیس، پانی اور جائدادوں کی خرید وفروخت پر ٹیکس بڑھادیا جائے، پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھا دی جائیں، سیلز ٹیکس میں اضافہ کیا جائے، ان تمام چیزوں کی زَد زیریں اور متوسط طبقات پر سب سے زیادہ پڑتی ہے۔ حکومت یہ عذر پیش کرتی رہتی ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں مجبور ہیں، مگر حال ہی میں ان دونوں اداروں نے کہا ہے: حکومت کی طرف سے نچلے طبقات کو زرِ اعانت (Subsidy) دینے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، ہمارا مطالبہ یہ ہے: سیلز ٹیکس کم کیا جائے اور مالداروں پر زیادہ ٹیکس عائد کر کے نچلے طبقات کو مراعات دی جائیں، لیکن یہی کام حکومت کے بس کا نہیں ہے۔ جب حکومت پٹرول/ ڈیزل، بجلی وغیرہ پر زرِ اعانت کی بات کرتی ہے، تو عالمی مالیاتی اداروں کا مطالبہ ہوتا ہے: اہداف متعین کر کے زرِ اعانت دیا جائے، اسی کو Targetted Subsidy کہتے ہیں، یعنی یہ صرف اور صرف غریبوں کے لیے ہو، لیکن اس کے لیے حکومت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو کوئی قابلِ عمل طریقۂ کار بناکر دینے کے قابل نہیں ہے۔
ہمارے معاشی مسائل کا ایک ہی حل ہے: چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا، یعنی افراد کی طرح حکومت اور اداروں کو بھی اپنے وسائل کے اندر رہنے کا سلیقہ سیکھنا اور کچھ عرصے یا لمبے عرصے کے لیے عشرتوں سے دست بردار ہونا یا اپنی چادر کو اپنی خواہشات کی جسامت کے مطابق وسیع کرنے کی تدبیر اختیار کرنا، بظاہر یہ دونوں کام کافی مشکل ہیں۔ مشرف دور سے لے کر آج تک تقریباً ہر حکومت نے یہ چاہا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے مارکیٹیں سرِ شام بند کردی جائیں، لیکن بالآخر ہر حکومت کو اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھنا پڑا اور وہ اپنی رِٹ منوانے کے بجائے خود ہی پسپائی اختیار کر کے اپنی اس خواہش سے غیر عَلانیہ طور پر دست بردار ہوتی رہی۔
ایک حل جس کا مطالبہ ہم سے تمام عالمی مالیاتی ادارے تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں کہ اہلِ ثروت اور باوسائل لوگوں سے پورا پورا ٹیکس لیا جائے اور بہت سے لوگوں کے دعوے کے مطابق اس طرح سالانہ بیس ہزار ارب روپے تک جمع کیے جاسکتے ہیں، لیکن اگر ہم حقیقت پسندی سے سوچیں اور سچ کا سامنا کرنے کا حوصلہ پائیں توعلامہ جلال الدین رومی کی زبان میں یہی کہا جاسکتا ہے:
ہم خدا خواہی وہم دُنیائے دُوں
ایں خیال است ومُحال است وجُنوں
مفہومی ترجمہ: ’’(ہمارے فکری تضاد کا عالَم یہ ہے:) ہم بیک وقت خدا کی رضا کے بھی طلب گار ہیں اور بے وقعت دنیا کے بھی خواست گار ہیں، یہ محض ایک خواب یا خیال تو ہوسکتا ہے، لیکن اس خواب وخیال کی عملی تعبیر پانا دشوار ہے، بلکہ درپیش حالات میں اسے دیوانگی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے‘‘۔
ایک حل جو عالَمِ خواب میں ہر حاکمِ وقت کو سوجھتا ہے کہ معیشت کو دستاویزی (Documented) بنایا جائے تاکہ ہر دکاندار کے کھاتے کمپیوٹر میں محفوظ ہوں، کالے دھن کا خاتمہ ہوجائے، ملک کی ساری دولت زرِ سفید (White Money) کی صورت اختیار کرلے۔ جنرل پرویز مشرف جب کُلّی اختیارات کے مالک تھے، اُن کے اقتدار کو کہیں سے کوئی چیلنج درپیش نہیں تھا، وہ بھی اس
خوش گمانی اور خود فریبی کا شکار ہوئے کہ کاروبار کو دستاویزی شکل دی جائے، یہ کام ہمارے لیے آسان ہے، پھر جب کاروباری طبقات نے مزاحمت کی اور شٹر ڈائون ہڑتال شروع کی تو جنرل پرویز مشرف نے ترنگ میں آکر کہا: ’’بھلے یہ دس دن تک کاروبار بند رکھیں، گیارھویں دن جب یہ دکانیں کھولیں گے، تو ہمیں اپنے دروازے پر پائیں گے‘‘، لیکن آخر کار انہیں بھی یہ بھاری پتھر چوم کر رکھنا پڑا، پس سامنے کی حقیقت یا نوشتۂ دیوار یہی ہے، اگر کوئی دیدہ ودانستہ آنکھیں بند کرلے تو اس کی مرضی، عربی زبان میں اسے ’’تَعَامِیْ (اندھا بننا)‘‘، اسی کو اردو محاورے میں ’’شتر مرغ کی
طرح ریت میں سر دبانے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے: ایوانِ صدر، ایوانِ وزیر اعظم، سارے گورنرہائوس، انگریزوں کے زمانے کے ایکڑوں پر مشتمل کمشنر ہائوس اور ڈی سی ہائوس وغیرہ کو پلاٹوں میں تبدیل کر کے تجارتی بنیادوں پر پوری شفافیت کے ساتھ فروخت کردیا جائے، توکم از کم داخلی قرضوں کے بوجھ کو جزوی طور پر یا رواں بجٹ میں آمد وخرچ کے درمیان فرق کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ خان صاحب نے ان بڑے بڑے ایوانوں کو یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں بدلنے کا دعویٰ کیا تھا، مگر یہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ بڑے بڑے محلات ایسے ’’بَیْتُ الْجِنّ‘‘ ہیں کہ جو بھی ایک بار ان میں داخل ہوجائے، وہ جیتے جی ان سے نکلنا نہیں چاہتا، تاوقتیکہ اُسے جبراً نہ نکالا جائے۔
کہا جاتا ہے: ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ جاگیرداری ہے، یہ جاگیرداریاں سرگودھا، جھنگ، میانوالی سے لے کر سرائیکی بیلٹ سے گزرتے ہوئے سندھ تک پھیلی ہوئی ہیں، چونکہ پارلیمنٹ میں جاگیردار طبقے کی اکثریت ہے، اس لیے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں سے انکم ٹیکس وصول کرنا تو درکنار، وہ تو مزید مالی رعایتیں اور زرِ اعانت چاہتے ہیں، ٹیوب ویلوں کی بجلی پر رعایت چاہیے، ٹریکٹر، زرعی آلات، کھاد، کیڑے مار دوائیں، عمدہ بیج الغرض سب چیزیں رعایتی قیمت پر چاہییں، پس جاگیردار اور زمیندار اپنے آپ کو مستحقین کے طور پر پیش کرتے ہیں، حالانکہ انکم ٹیکس تو مصارف نکال کر اُن کی صافی (Net) آمدنی پر لاگو ہوتا ہے۔
جماعتِ اسلامی بلاشبہ ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتی ہے، عوامی مسائل کو اجاگر کرتی ہے، ماضی اور حال کی تمام حکمران جماعتوں کو کوستی ہے اور ان حالات کا ذمے دار ٹھیراتی ہے، لیکن چونکہ اس بھنور سے نکلنے کے لیے کوئی ٹھوس اور عملی تجاویز پیش نہیں کرپاتی، اس لیے انتخابات کے موقع پر اُسے قبولیتِ عامّہ نصیب نہیں ہوتی۔ یہی صورتِ حال تحریک لبیک پاکستان کی ہے: وہ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں نکال سکتی ہے، اُن کا ٹریک ریکارڈ اس بات کا ثبوت ہے، لیکن مسائل کو نہ تو وہ مؤثر انداز میں پیش کر پاتے ہیں اور نہ کوئی حل تجویز کرتے ہیں، اس لیے اس طرح کی مذہبی سیاسی جماعتیں محض ایسے ’’پریشر گروپ‘‘ بن کر رہ جاتی ہیں، جو اپنی قبولیت کو انتخابی نتائج میں بدلنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ہم نے بارہا انہیں متوجہ کرنے اور خیالی فضائوں سے نکل کر حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی اختیار کرنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن اپنی بنیادی ساخت اور فکری منہَج کے سبب ہم ایسے ناتجربہ کار لوگوں کی باتیں انہیں قابلِ توجہ معلوم نہیں ہوتیں، کیونکہ قبولیت کے نعروں اور ہجوم کا سحر ہی اتنا اثر انگیز ہوتا ہے کہ انسان اُس کے اثر سے نکلنا ہی نہیں چاہتا اور ہم جیسے لوگوں کی بات انہیں’’ مجذوب کی بَڑ‘‘ محسوس ہوتی ہے، تاہم ملک کی کامیابی کے لیے بصد عَجز ونیاز وبغایتِ اخلاص دعا گو ہیں۔