وفاقی شریعت عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کے خلاف درخواستوں پر 19سال بعد اپریل 2022 کو فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر شرعی قرار دے دیا اور حکومت کو حکم دیا کہ دسمبر 2027 تک ملک کے پورے معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے۔ اس فیصلے کے خلاف حسب روایت اپیلوں کا معاملہ شروع ہوا۔ وفاقی شریعت عدالت نے 28 اپریل 2022 کو ربا کے خلاف فیصلہ دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مرکزی بینک غالباً وہ پہلا ادارہ تھا جس نے اس فیصلہ کو نہایت مستعدی سے مئی 2022 میں عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا۔ اصولاً تو اس فیصلے کی مخالفت کے بجائے اس کے نفاذ کے لیے مرکزی بینک ہونے کے ناتے اسٹیٹ بینک کو مثبت مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ 2003 میں اسی مرکزی بینک نے اسلامی بینکاری کی ترویج اور ترقی کے لیے پالیسیاں جاری کی تھیں۔
اسلامی بینکاری کو فروغ دینے کے لیے بینک کے اندر ایک اسلامی بینکاری شعبہ بھی بنایا گیا ہے۔ مرکزی بینک اور بینکوں کے معاملات میں شریعہ کے امور کی نگرانی ورہنمائی کے لیے اسٹیٹ بینک میں ماہرین شریعہ، بینکر، چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک شریعہ بورڈ (جسے اب شریعہ کمیٹی کہا جاتا ہے) بھی تشکیل دیا گیا، اس بورڈ کے پہلے سربراہ ایک بڑی علمی شخصیت اور بڑے اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی تھے۔ مرکزی بینک کی اسی پالیسی کے تحت شریعہ کے امور کی نگرانی اور بینکوں کے مالی معاملات اور ان کی خدمات وپراڈکٹس میں شریعہ کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے اسلامی بینکوں اور سودی بینکوں کی اسلامی بینکاری ڈویژنز میں بھی شریعہ کے ماہرین پر مشتمل شریعہ بورڈز قائم کیے گئے۔
شریعت عدالت کے فیصلے کو جاری ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال بیت گیا۔ اس عرصے میں فیصلے کے عملی نفاذ کے لیے مرکزی بینک کے شعبہ اسلامی بینکاری نے کیا کوششیں کیں، کیا روڈ میپ یا موقت منصوبہ سازی کی کسی کو کچھ پتا نہیں! شعبہ اسلامی بینکاری کے ذمے داران میں تو شاید کوئی عالم یا شریعہ کا ماہر موجود نہ ہو لیکن بینک کا شریعہ بورڈ تو ہے ہی علماء پر مشتمل شریعہ کا محافظ (custodian of Sharia)۔ شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک کی اپیل پر custodianof Sharia نے کیا ردعمل دیا، کچھ علم نہیں۔ آیا رد عمل دیا بھی یا نہیں اس کا بھی کوئی پتا نہیں! اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں بینکوں کے شریعہ بورڈز یا ان بورڈز کے اندر موجود مشیران شریعہ (سوائے مفتی منیب الرحمان) کی طرف سے کسی واضح ردعمل یا تجویز کا بھی کہیں پتا نہیں چلتا۔ یہاں بھی مکمل خاموشی ہے۔ یعنی شریعہ کے محافظ تین اداروں، اسٹیٹ بینک کے شعبہ اسلامی بینکاری، اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ اور بینکوں کے شریعہ بورڈز کی طرف تقریباً مکمل خاموشی نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی اور زیادہ ذمے داری مرکزی بینک کے شریعہ بورڈ کی بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سود کے خاتمے کی جو طاقت اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ بس ادراک کی ضرورت ہے۔
سود کے انسدد کے خواہاں لوگ یہ جاننے میں حق بجانب ہیں کہ: 1- آیا مرکزی بینک کے شعبہ اسلامی بینکاری نے شریعت عدالت کے فیصلے پر مقررہ مدت کے اندر عملدرامد کے لیے کوئی لائحہ عمل تیارکیا ہے۔ اگر کیا ہے تو اس کی کوئی خیر خبر اور اس پر اب تک کی پیش رفت! 2- کیا مرکزی بینک اور ملک کے تمام بینکوں کے معاملات میں شرعی اصولوں کے تحفظ کے مرکزی ذمے دار کے طور پر شریعہ بورڈ نے مرکزی بینک سے عدالت کے فیصلے پر عملدرامدکا کوئی لائحہ عمل مانگا؍ تیار کرنے کے لیے کہا ہے۔ 3- کیا مرکزی بینک سے سودی بینکاری کے خاتمے کے لیے شریعہ بورڈ نے بینک سے سودی بینکاری برانچز کے لائسنس روکنے کے لیے کہا ہے۔ 4- کیا سودی بینکوں کی اسلامی بینکاری ڈویژنز کے شریعہ بورڈز نے اپنے بینکوں کو شریعت عدالت کے فیصلے پر عملدرامد کے لیے کسی موقت منصوبہ بندی کے لیے کہا ہے یا کوئی تجویز یا مشورہ دیا ہے اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھر کے بینکوں کے مشیران شریعہ کے ہاں سودی نظام کے خاتمے کے لیے کوئی عملی منصوبہ موجود ہے۔ کیا سود کے عذاب سے نجات کے موضوع پر مشیران شریعہ کے پاس کسی موثر مشترکہ حکمت عملی؍ جدوجہد کے لیے اجتماعی فورم کی تشکیل کا کوئی پروگرام زیر غور ہے۔