عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کے بارے میں قومی اسمبلی میں منظور کردہ قانون کو بحال کردیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے 5/10 کی اکثریت سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو درست اور آئین کے مطابق قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ قاضی نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماسٹر آف روسٹر کا نظریہ دفن ہوگیا۔ پارلیمان نے عدالت عظمیٰ کی عزت رکھی، قانون سازی کو چارج شیٹ نہ کہیں، اداروں کو آپس میں نہ لڑائیں، جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کریں۔ مذکورہ قانون سابق قومی اسمبلی میں منظور ہوا تھا جب کہ اس کی مدت ختم ہونے والی تھی، اس قانون کے تحت دستور کی دفعہ (3) 184 کے تحت مقدمات کے بنچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس سے لے کر تین رکنی کمیٹی کو دے دیا گیا۔ اسی طرح اسی دفعہ کے تحت عدالت عظمیٰ کے سربراہ ازخود نوٹس لینے کا اختیار تھا۔ اس اختیار کو بھی تین رکنی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اس سے قبل آئین کی دفعہ 184 (3) کے تحت سنائے جانے والے فیصلوں پر متاثرہ فریق کو اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔ اس قانون کا موثر بہ ماضی کے اطلاق کی شق مسترد کردی گئی ہے۔ بحیثیت مجموعی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور اسے پارلیمنٹ کی بالادستی کی طرف قدم قرار دیا گیا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران میں جو کلیدی نکتہ زیر بحث تھا وہ یہ کہ پارلیمان عدلیہ کے قواعد و ضوابط کا تعین کرسکتی ہے یا عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے پارلیمان کو عدلیہ کے امور میں مداخلت کا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ مقدمہ ایسے ماحول میں سامنے آیا تھا جس میں سیاسی کش مکش عروج پر تھی اور اس کے اثرات عدلیہ میں بھی نظر آرہے تھے۔ عدالت عظمیٰ کے مقدمات کی وقائع نگاری کرنے والے ذرائع ابلاغ کے نمائندے عدلیہ کے ججوں میں تقسیم کو کھل کر بیان کررہے تھے۔ یہ تقسیم سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں زیادہ نظر آئی تھی۔ اب یہ بھی تقسیم واضح طور پر موجود ہے۔ اس تقسیم نے عدلیہ کی ساکھ کو مجروح کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کی اکثریت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ چیف جسٹس کے مطلق اختیارات کو کسی نظام کے تحت لایا جائے۔ اس قانون کی مخالفت کرنے والے قانونی ماہرین اسے خود مختار عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے رہے تھے۔ پاکستان کی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ قانون سازی کسی اصول اور عمومی اجتماعی صلاح و فلاح یا کسی فساد اور بگاڑ کے خاتمے کے لیے نہیں کی گئی ہے بلکہ شخصی، اداراتی اور طبقاتی مصلحتوں کے مطابق قانون سازی کی جاتی ہے، اس لیے حکومتی اور سیاسی امور کے تمام مقدمات بھی سیاسی رنگ اختیار کرلیتے ہیں، سیاسی بنیادوں پر عدلیہ متنازع ہوجاتی ہے۔ جس کا ذکر اور اعتراف فاضل اور محترم چیف جسٹس اور برادر ججوں نے کیا ہے اور کہا ہے کہ عدلیہ مارشل لائوں کو جواز عطا کیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے مناصب پر فائز رہنے والے قابل احترام ججوں کی جانب سے اس کا اظہار مستقبل میں ان کے فیصلوں اور اقدامات سے ظاہر ہوگا۔ سیاسی اور گروہی تقسیم کی وجہ سے عدلیہ بھی متنازع ہوجاتی ہے۔ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس افتخار محمد چودھری کی اچانک برطرفی کے خلاف تحریک نے عدالتی فعالیت کے نئے دور کو متعارف کرایا۔ اب اس تحریک میں حصہ لینے والے لوگ بھی غلطیوں کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔ عدالتی فعالیت نے ہمارے فاضل ججوں کے اندر بھی سیاست دانوں کی طرح پبلسٹی کا شوق پیدا کردیا ہے۔ اس شوق نے عدلیہ کے ججوں کو دوران سماعت میں تبصرے کرنے کی روایت بھی ڈال دی ہے۔ ظاہر ہے کہ سیاسی مقدمات ہی ذرائع ابلاغ میں جگہ پاتے ہیں اس سے ججوں کو شہرت تو حاصل ہوتی ہے لیکن ان کی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔ ان تمام خرابیوں کے باوجود عدلیہ کی طرف قوم کی نظریں رہتی ہیں۔ پاکستان اس وقت بدترین سیاسی و اقتصادی بحران میں مبتلا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی طرزِ حکومت کے معمول کا حصہ ہے۔ عدلیہ کے ججوں نے بجا طور پر قانون سازی کے پارلیمانی اختیار کو تسلیم کیا ہے۔ اس لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان کے طرزِ حکمرانی کو آئین اور قانون کا پابند کیسے کیا جائے۔ ریاست کے تمام ستون تباہ ہوچکے ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں اور آئین کے مطابق 90 دن کے اندر انتخاب کراکے پارلیمان کو مکمل کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔ عدالت عظمیٰ میں کئی ایسے مقدمات موجود ہیں جو اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ سیاسی اور حکومتی امور میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت ختم ہوگئی ہے۔ اسی ضمنی میں شہریوں پر فوجی عدالت میں مقدمات چلانے کے کالے قانون کے خلاف بھی مقدمہ موجود ہے۔ کیا اسے بھی پارلیمان کا حق قرار دے کر آئینی اور قانونی سند دے دی جائے گی۔ حالات بہت خراب ہیں، ایسے پس منظر میں پارلیمان کے احترام کا عدالت عظمیٰ کی جانب سے اعلان قابل اطمینان تو ہے لیکن دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے۔