فلسطین کی آزادی کی جنگ

869

فلسطین انبیاء کی سرزمین جس پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ قبلہ اول پر صہیونیوں کے قبضے سے امت مسلمہ خون کے آنسو رو رہی ہے۔ حماس کے نہتے اور بہادر مجاہدوں نے غلیل کے ذریعے اپنی مذاحمتی تحریک کا آغاز کیا اور اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہفتہ کو رات کے اندھیرے میں نہتے مجاہدین پیراشوٹ اور گلائیڈر سے اسرائیل پر جھپٹ پڑے اور دنیا کی بڑی خفیہ ایجنسی موساد کے سارے حفاظتی اقدامات کو اپنے پیروں تلے کچل کر ان کا غرور وتکبر خاک میں ملا ڈالا۔ حماس کے اس حملے نے پوری امت میں ایک نیا جوش وولولہ پیدا کردیا ہے۔ فلسطین اور حماس کی حمایت میں پورے عرب ممالک، پاکستان، ترکی، بنگلا دیش، انڈونیشیا، لبنان، ایران ودیگر ممالک میں مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور فلسطینیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ ادھر امریکا نے بھی ایک لمحہ کا بھی انتظار کیے بغیر اسرائیل کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ 53سے زائد مسلم ممالک ابھی گومگو کی کیفیت میں ہیں اور ان میں اتنی بھی ہمت جرأت نہیں کہ وہ فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کا اعلان کریں۔ اکثر ممالک تحمل سے کام لینے کی باتیں ہی کر رہے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین اسرائیل کی باڑ توڑ کر اسرائیل میں داخل ہوگئے اور حماس کے مجاہدین کامیاب حملوں پر سجدہ شکر بجا لائے۔

حماس نے اسرائیل پر زمین، سمندر، اور فضا سے حملہ کیا اور ہزاروں راکٹ برسائے جس سے اسرائیل کی وزارت خارجہ کی عمارت بھی تباہ ہوگئی ہے۔ حماس نے آپریشن طوفان الاقصیٰ میں اسرائیل کا غرور خاک میں ملا دیا ہے قبلہ اول کی بازیابی ملت اسلامیہ کی گردن پر قرض ہے اور پوری امت کو حماس کے ساتھ کھڑا ہوجانا چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ’’اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ تمہارے کبھی دوست نہیں ہوسکتے‘‘۔ بے شک حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے امت مسلمہ کا بھرم باقی رکھا ہے اور فلسطینیوں کی مذاحمت کی تحریک نے امت کو زندگی بخشی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے نتیجے میں ان شاء اللہ جلد کشمیر بھی آزاد ہوگا اور بھارت کی بالا دستی ختم ہوگی۔ جس طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کشمیر میں روندا جاتا ہے اسی طرح فلسطین میں بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حشر کیا جاتا ہے اور نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ اسرائیل کے اس ناجاہز قبضے پر امریکا پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑا ہے اور دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں بسایا جارہا ہے۔ شوق شہادت کے جذبوں سے سرشار حماس کے اس حملے نے یہودیوں کے پائوں اکھاڑ دیے ہیں اور وہ فلسطین سے فرار ہورہے ہیں۔ تل ابیب ائرپورٹ ہر طرح کی پروازوں کے لیے بند کردیا گیا ہے لیکن ہزاروں یہودی اپنی جانیں بچانے کے لیے فلسطین سے فوری نکلنا چاہتے ہیں اور وہ انتہائی خوف اور دہشت کی حالت میں ہیں۔

اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اس حملے کو حماس کی بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے جوابی حملے کا عندیہ دیا ہے لیکن غلیل اور پتھر سے اسرائیلی فوجیوں کا مقابلہ کرنے والے فلسطینی بچے اب جوان ہوچکے ہیں اور وہ آزادی یا شہادت کا نعرہ بلند کررہے ہیں ایسے میں مسلم ممالک کی ذمے داری ہے کہ وہ فلسطین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں۔ سعودی عرب کا اس میں اہم کردار ہے۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ فلسطین کی غیر معمولی صورت حال کا ہم جائزہ لے رہے ہیں فریقین شہریوں کے تحفظ کا خیال رکھیں اور عالمی برادری امن کے لیے دو ریاستی حل پر کام کریں۔ قطر نے حالیہ کشیدہ صورت حال کا ذمے دار اسرائیل کو ٹھیرایا اور عالمی برداری سے کہا کہ وہ ان واقعات کا بہانہ بنا کر فلسطینیوں پر جنگ مسلط کرنے سے روکے۔ ادھر حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اسرائیل میں کامیاب آپریشن پر سجدہ ریز ہوگئے انہوں نے کہا کہ ہم نے مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔ ہم مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں جو غزہ سے شروع ہوکر مغربی کنارے اور بیرون ملک پھیلے گا۔

بلاشبہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تازہ صورتحال مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ اور امن کے ٹھیکیداروں کو چاہیے کہ وہ حالات کی سنگینی کو سمجھے اور اسرائیل کو لگام دی جائے اور اسے نکیل ڈالی جائے۔ اسرائیل نے گزشتہ کچھ عرصے میں 300 فلسطینی شہید کردیے اور فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کی ناجائز بستیاں آباد کی گئی تھی فلسطینیوں کے پاس تنگ آمد بجنگ آمد کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسرائیل جتنا بھی ظلم کر لے فلسطینی آزادی اور اپنی سرزمین سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں غزہ کے مجاہدوںکو دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے وہ فلسطین کی پاکیزہ سرزمین پر صہیونیوں کے ناپاک قبضے کو فلسطینی کسی قیمت پر قبول نہیں کرنے کو تیار نہیں۔ لاکھوں فلسطینی مرد، خواتین، بچے شہید ہوچکے ہیں اور نسل در نسل فلسطینی آزادی کی جنگ جرأت واستقامت سے لڑ رہے ہیں۔ امریکا اسرائیل کی سرپرستی کر کے پوری دنیا کے امن کو تباہ کررہا ہے۔ امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ اپنی بے حسی، جانبداری، مسلم دشمنی اور صہیونی نوازی ترک کریں۔

قبلہ اول کی بازیابی ملت اسلامیہ کی گردن پر قرض بھی ہے اور فرض بھی۔ عالم اسلام اس سلسلے میں اپنی ذمے داری ادا کرے تو یہ عزت اور کامیابی کا راستہ ہوگا۔ ورنہ حق کو تو غالب آنا ہی ہے۔ بقول سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن ؒ کے کہ ’’غالب تو اللہ کے دین کو آنا ہے۔ خواہ کوئی عزت سے قبول کرے یا ذلت سے‘‘۔ ان شاء اللہ حماس کی جدوجہد اور ان کی قربانیاں رنگ لائے گی اور اسرائیل بہت جلد دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا اور قبلہ اول کو آزادی حاصل ہوگی۔