انتخابات۔ برفباری اور نواز شریف کا معما

594

ایک زمانہ تھا کہ مولانا فضل الرحمن عمران خان کی حکومت ختم کرانے اور اس کے فوری بعد انتخابات کروانے کے لیے اتنے بے چین تھے کہ بھاری جمعیت کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کردی تھی اور دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہے زمین و آسمان ایک ہوجائیں وہ عمران خان کا استعفا لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ وہ تو کہیے چودھری برادران کی سیاست کام آئی اور وہ مولانا فضل الرحمن کو وعدہ فردا پر ٹالنے میں کامیاب رہے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اب جبکہ انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا ہے کہ انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں ہوں گے تو حضرت مولانا کی پریشانی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ان کی شدید خواہش ہے کہ انتخابات نہ ہونے پائیں۔ وہ تو اس بات کے بھی حق میں نہ تھے کہ پی ڈی ایم کی حکومت آئینی مدت پوری ہونے کے بعد مستعفی ہو بلکہ چاہتے تھے کہ یہی حکومت دو چار سال مزید چلتی رہے اور جب حالات سازگار ہوں تو بے شک انتخابات کرادیے جائیں۔ انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار بار بار کیا۔ دلیلیں بھی دیں لیکن ان کی کوئی دلیل بھی کاگر ثابت نہ ہوئی اور وزیراعظم شہباز شریف آئینی مدت پوری ہوتے ہی استعفا دے کر واپس لندن چلے گئے اور حضرت مولانا کو بیچ منجھدار کے چھوڑ گئے۔ اب نگراں وزیراعظم سے بھی حضرت مولانا کا یہی مطالبہ ہے کہ وہ انتخابات کرانے کی غلطی نہ کریں۔ دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ جنوری کے آخر میں خیبرپختون خوا میں برفباری شروع ہوجائے گی۔ برفباری میں لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے کیسے نکلیں گے۔ خیر برفباری تو ایک بہانہ ہے حضرت مولانا انتخابات سے پہلے معیشت بحال کرنے پر زور دے رہے ہیں جو جان جوکھم کا کام ہے اور اس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ بعض ستم ظریفوں کا کہنا ہے کہ مارچ کا مہینہ بھی انتخابات کے لیے موزوں نہیں ہے کیونکہ اس مہینے میں اسلام آباد میں پولن کا زور ہوتا ہے اور لوگ گلے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ایسے میں وہ ووٹ ڈالیں گے یا گلے کا علاج کرائیں گے۔ ووٹ تو پھر بھی پڑ سکتے ہیں البتہ صحت خراب ہوجائے تو اس کا بحال ہونا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ سنا ہے کہ نگراں حکومت نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے، اسے بھی انتخابات کرانے کی اتنی جلدی نہیں ہے۔

لیکن دوسری طرف مسلم لیگ (ن) بڑے زور شور سے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے، میاں نواز شریف نے اعلان کردیا ہے کہ وہ ہر حال میں 21 اکتوبر کو پاکستان واپس تشریف لائیں گے اور لاہور ائرپورٹ سے براہِ راست مینار پاکستان پہنچ کر ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کریں گے اور اپنے ولولہ انگیز خطاب سے پاکستان کی تاریخ بدل دیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ میاں صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی کے سمجھانے بجھانے پر اپنا جارحانہ بیانیہ بدل دیا ہے اور وہ جن لوگوں کو الٹا

لٹکانا چاہتے تھے اب ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ چھوٹے بھائی نے بھی ایک وضاحتی بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف انتقام لینے نہیں عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے آرہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ان کے سیاسی مخالفین نے یہ بحث چھیڑ رکھی ہے کہ کیا ایک سزا یافتہ مجرم کو پاکستان آکر براہ راست جلسہ عام سے خطاب کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ کیا پاکستان واقعی ایک ’’بنانا ری پبلک‘‘ ہے کہ وہ یہ سب کچھ بے بسی سے دیکھتا رہے گا اور اسے قانون کو حرکت میں لانے کی جرأت نہ ہوگی؟ اس کا جواب رانا ثنا اللہ نے یہ دیا ہے کہ میاں نواز شریف مینار پاکستان پر جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد خود کو قانون کے حوالے کردیں گے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ تو قانون کا مذاق اڑانے والی بات ہے۔ قانون تو انہیں جیل میں دیکھنا چاہتا ہے وہ جیل میں رہ کر عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں اور عدالت انہیں ضمانت پر رہا کرسکتی ہے۔ یہی قانونی راستہ ہے اس کے علاوہ کوئی اور شارٹ کٹ نہیں ہے۔ رانا ثنا اللہ نے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ میاں صاحب کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی ڈیل ہوگئی ہے اگر ڈیل نہیں ہوئی تو یقینا قانون حرکت میں آئے گا اور حکومت کو نہ چاہتے ہوئے میاں صاحب کو ائرپورٹ سے جیل بھیجنا پڑے گا اور مینار پاکستان کا جلسہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ ہم یہاں تک لکھ پائے تھے کہ

لندن سے ایک اور اہم خبر آگئی جس میں بتایا گیا ہے کہ میاں صاحب ڈاکٹروں کی جس ٹیم کے زیر علاج ہیں وہ میاں صاحب کی پاکستان روانگی سے پہلے ان کا مکمل طبی معائنہ کرے گی اور اس معائنے کی روشنی میں ٹیم فیصلہ کرے گی کہ میاں صاحب کو پاکستان کا سفر اختیار کرنا چاہیے یا نہیں۔ یوں تو میاں صاحب لندن میں قیام کے دوران یورپ بھی گھومتے رہے ہیں اور عرب ملکوں کا سفر بھی کیا ہے، دبئی تو وہ کئی بار گئے ہیں لیکن پاکستان کا سفر اپنے موسم اور سیاسی تغیرات کے سبب بالکل مختلف ہے۔ اگر میاں صاحب چوتھی بار وزیراعظم بنتے ہیں (جس کے بارے میں انہوں نے خود یقین دہانی کروائی ہے) تو ایسی صورت میں انہیں عارضی یا مستقل پاکستان میں قیام کرنا ہوگا۔ ان حالات میں ان کی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹروں کی ٹیم ان کے سفر پاکستان کے خلاف رائے دے سکتی ہے اور ان کے پاکستان سفر کرنے پر پابندی لگا سکتی ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے آگے مریض کی ایک نہیں چلتی۔ سنا ہے کہ ان کی میڈیکل رپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں پیش بھی کردی گئی ہے جس میں انہیں عارضہ قلب کے سبب سفر کے ناقابل قرار دیا گیا ہے۔ پتا نہیں یہ رپورٹ پہلے سے تیار تھی یا معائنے کے بعد تیار کی گئی ہے۔ نواز شریف کا معاملہ بھی منیر نیازی کے اس شعر سے مختلف نہیں ہے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

اسے آپ ایک معما بھی کہہ سکتے ہیں جو سلجھنے کے بجائے اور اُلجھتا جارہا ہے۔