کیا مروجہ اسلامی بینکاری اسلامی ہے (آخری حصہ)

703

اصل خرابی یہ ہے کہ یہ متوقع نفع ہی دراصل وہ طے شدہ نفع ہے جو ہر صورت ڈپازیٹر کو ملے گا۔

اس کو معین اور یقینی بنانے کے لیے معاہدے میں ’’اگر مگر‘‘ کے ساتھ کچھ شقیں ڈالی جاتی ہیں۔ اگر نفع متوقع سات فی صد سے کم ہوا تو بینک اپنے حصے میں سے ہبہ کرکے سات فی صد پورا کردے گا۔ اگر نفع متوقع سات فی صد سے زیادہ ہوا تو سات فی صد سے اوپر جو نفع ہے وہ بینک اپنی محنت کا انعام سمجھ کر اپنے پاس رکھ لے گا۔ (عملی طور پر نفع نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ۔ یہ شقیں عموماً محض شرعی قواعد کی ضرورت کی تکمیل کے لیے معاہدے میں شامل کی جاتی ہیں)۔ باقی رہا نقصان تو الحمدللہ اسلامی بینک شریعت کی برکت سے کبھی نقصان میں جاتا ہی نہیں! کچھ ایسا ہی طریقہ وکالہ میں بھی اختیار کیا جاتا ہے۔

وکالہ ایک متعین اجرت والا معاہدہ ہے۔ اس میں بینک سرمایہ کاری وکیل کے طور پر پیسہ لیتا ہے۔ یعنی بینک گاہک (موکل) کا پیسہ کاروبار میں لگانے کے لیے لیتا ہے۔ اس میں اصول یہ ہے کہ وکیل ایمان داری سے موکل کے لیے کسی منافع بخش کاروبار میں پیسہ لگائے گا۔ کاروبار میں نفع ہو یا نقصان موکل اس کا حقدار ہوگا۔ بطور وکیل بینک ایک متعین اجرت کا حقدار ہوگا۔ پیسہ لیتے وقت بینک گاہک کو کاروبار کے متوقع منافع کے بارے میں بتائے گا۔ اب اپنے نفع کو متعین، طے شدہ اور یقینی بنانے کے لیے یہ شقیں معاہدے میں شامل کرے گا کہ اگر اصل منافع متوقع منافع سے زیادہ ہوا تو بطور وکیل زائد منافع محنت کے صلے کے طور پر وہ خود رکھ لے گا اور اگر نفع کم ہوا تو بینک اپنی اجرت میں سے ہبہ کرکے اسے متوقع منافع کے برابر کرکے موکل کو دے گا۔ یعنی متوقع منافع ہی آخری اور طے شدہ منافع ہے جو گاہک کو ملے گا نہ کم نہ زیادہ!

حرام کو حلال بنانے کے حیلے: ایک عقد میں دو بیع شرعاً جائز نہیں۔ اس لیے عقد الگ الگ کرلیں یا ایک عقد اور دوسرا وعد کرلیں۔ مثلاً بینک آپ کو گاڑی اجارہ پر دیتا ہے۔ گاڑی کے استعمال کا ماہانہ کرایہ وصول کرتا ہے۔ بینک سے گاڑی لینے والے کا اصل مقصد گاڑی خریدنا ہوتا ہے نہ کہ کچھ وقت استعمال کرنا۔ بینک ایک متعین مدت (عموماً پانچ سال) بعد وہ گاڑی گاہک کو ایک طے شدہ قیمت کے عوض دے دیتا ہے۔ شرعاً بیچنے اور کرایہ کے عمل کو ایک عقد میں یکجا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اجارہ کا عقد کرلیا جاتا ہے اور بینک یا گاہک خرید نے یا بیچنے کا یکطرفہ ’’وعد‘‘ کر لیتا ہے۔ یہ حیلہ بیعتین فی بیع کے عدم جواز سے بچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح ایک ہی شے کا ایک ہی وقت میں اجارہ بھی ہوگیا اور فروخت بھی اور بیعتین‘‘ کی حرمت سے بھی بچ گئے۔ ماہرین شریعت و مفتیان کرام کے فتوے کے مطابق عوام کے سودی بینکوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا مالی تعلق رکھنا جائز نہیں۔ نہ سودی بینک میں اکاونٹ کھولنا جائز ہے نہ اس سے کاروباری یا ذاتی ضروریات کے لیے کوئی قرض لینے کی اجازت! لیکن اسلامی بینک سودی بینک کو سرمایہ فراہم کرسکتا ہے۔ اس کے لیے کموڈٹی مرابحہ کا حیلہ اِختیار کیا جاتا ہے۔ کموڈٹی مرابحہ کا طریقہ کار زبردست ہے۔ کموڈٹی مارکیٹ (سوق السلع) میں موجود کسی جنس مثلاً کپاس کی خریداری فروخت اور پھر واپس فروِخت اور اسلامی بینک سے سودی بینک کو فنڈ کی فراہمی کا سارا عمل کمپیوٹر پر بیٹھے بیٹھے دو تین منٹ کے اندر مکمل ہوجاتا ہے۔

طریقہ کار یہ ہے کہ سودی بینک کو ایک ملین روپے کی ضرورت ہے۔ اسلامی بینک کے پاس فالتو رقم دستیاب ہے۔ اسلامی بینک کموڈٹی مارکیٹ میں، ایک ایجنٹ کے ذریعے، دس لاکھ روپے مالیت کے برابر کپاس خریدتا ہے۔ اسلامی بینک اس دس لاکھ کی کپاس کو ایک لاکھ فائدہ کے ساتھ سودی بینک کو ادھار پر گیارہ لاکھ کی بیچ دیتا ہے۔ سودی بینک اس کپاس کو جو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی اسی مارکیٹ میں دوسرے ایجنٹ کے ذریعے بیچ کر دس لاکھ ’’کما‘‘ لیتا ہے۔ (خرید وفروخت کے اس تین منٹ کے سارے کھیل میں کموڈٹی یا زیر معاملہ کپاس جہاں رکھی تھی وہیں رکھی رہی)

سودی بینک اسلامی بینک کو قیمت نفع کے ساتھ قسطوں میں تین ماہ میں واپس کرے گا۔ یہ سارا معاملہ شریعت کے معیار پر فٹ کرنے کے لیے بینک کے شریعہ ایڈوائزر کو سخت محنت کرنی پڑی۔ بینک اور ماہر شریعت کی کوشش سے سودی بینک کو سرمایہ بھی فراہم کردیا گیا اور شریعہ کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی کہ اگر کوئی غیر مسلم حلال گوشت لینا چاہے تو قصائی اسے منع تو نہیں کرسکتا! پوری اسلامی بینکاری کی عمارت اسی قسم کے جواز اور حیلوں پر کھڑی ہے اور یہی اس کی زندگی ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان حیلوں سے نجات کے بارے کوئی فکر مندی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔