جب کوئی بھی محب وطن پاکستانی اس طرح کی کوئی خبر سنتا یا پڑھتا ہے کہ ’’دوحہ، قطر کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت ایران نے امریکا میں قید پانچ ایرانیوں کے بدلے پانچ امریکیوں کو رہا کیا اور اپنے منجمد فنڈز 6 ارب ڈالر کی منتقلی بھی کرا لی‘‘ تو شرمندگی کے باعث چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے۔ ویسے شرم سے مرنا تو ہمارے حکمرانوں کو چاہیے مگر ہمارے حکمرانوں اور ریاستی طاقت اور وسائل پر قابض کسی شخصیت میں رتی بھر شرم ہوتی تو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی قید ناحق میں 20 سال ہرگز نہ گزرتے۔ ہر طرف سے صدائیں آرہی ہیں کہ عافیہ بے قصور ہے، عافیہ بے قصور ہے، عافیہ بے قصور ہے۔ مگر اس بدبودار نظام نے ہماری قومی غیرت کو بے غیرتی کی نیند سلایا ہوا ہے۔ گزشتہ 20 سال میں ملک و قوم کے نام پر سیاست کرنے والے اقتدار کے ایوانوں میں آتے رہے، اقتدار کے مزے لوٹتے رہے مگر ڈاکٹر عافیہ جیسی باصلاحیت اور محب وطن شہری کے لیے نہ کسی نے ایگزیکیٹو اتھارٹی استعمال کرنے کی جرأت کی اور نہ ہی اسے ایک آئینی فریضہ سمجھتے ہوئے سرانجام دینے کی کوشش کی۔ جس کی واحد وجہ یہی نظر آتی ہے کہ اقتدار تک پہنچنے والوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اگلا الیکشن جیتنے کے لیے کارکردگی اور اہلیت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے، بس کچھ لوگوں کی تابعداری اور انہیں خوش رکھنے کی یقین دہانی کرانی پڑتی ہے اور جو یہ مقصد حاصل کر لیتا ہے اسی کا سر اقتدار کا تاج پہننے کا اہل قرار پاتا ہے۔
مگر طویل عرصے (75 سال) کے بعد ہی سہی، الحمدللہ آج عام پاکستانی یہ سوال کرنے لگا ہے کہ ایسا آخر کب تک چلے گا؟ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے حکمران عوام کی جیبوں پر تو ڈاکا مارتے رہیں گے مگر ملک کی دولت لوٹنے والوں سے ایک دھیلا بھی وصول نہیں کیا جائے گا۔ آج ایک عام پاکستانی سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ اب ملک کو ایماندار، اہل اور باصلاحیت قیادت کی ضرورت ہے مگر موجودہ ’’بیٹی فروش بدبودار نظام‘‘ میں ایسا ہونا ناممکنات معلوم ہوتاہے۔ کچھ نہ کچھ اس میں بھی حقیقت ہے کہ یہ بدبودار بیٹی فروش نظام کسی حکمران کو اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ عام پاکستانی شہری کو اتنا ریلیف فراہم کرے کہ وہ سکھ اور چین کی زندگی بسر کرسکے۔ یہ بدبودار نظام کسی حکمران کو اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ جیسی بے گناہ پاکستانی شہری کی رہائی کے لیے امریکی انتظامیہ سے بات کرے اور ایک باضابطہ خط ہی لکھ دے جبکہ اس کے برعکس امریکا اور یورپی ممالک اپنے قاتل شہریوں کو بھی بآسانی چھڑاکر لے جاتے ہیں کیونکہ ان ریاست کی نظروں میں اپنے شہریوں کی قدرو منزلت ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدانوں میں اتنی جرأت، قابلیت اور عام پاکستانی شہری کو ریلیف دینے کے معاملے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں پائی جاتی ہے۔ ایسا ہر سیاستدان جو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا تو ضرور مگر عوام کی فلاح اور ملک کی ترقی کے لیے اس نے کوئی کام نہیں کیا وہ ریاست اور سسٹم کی بدنامی کا باعث بنا ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ ’’ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے اور ایک پاکستانی کی جان و مال اور فلاح و بہبود کسی بھی دوسرے ملک کے مفاد سے مقدم ہے‘‘۔ ریاست کے ایک اہم ادارے کا یہ بیانیہ عافیہ موومنٹ کے ان لاکھوں سپورٹرز کی جدوجہد اور کامیابی کا ثمر ہے جو گزشتہ بیس سال سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ عافیہ موومنٹ کا یہ موقف رہا ہے کہ ’’ایک عام پاکستانی شہری کی قدرو منزلت (Value) ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے‘‘۔ اب جبکہ ریاست کی طرف سے یہ بیانیہ آ چکا ہے تو اس کی ابتداء قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لا کر کرنی چاہیے۔
قوم کی ایک باصلاحیت ماہر تعلیم بیٹی ڈاکٹر عافیہ 20سال سے امریکی ناحق قید میں ہے اور قوم کی دوسری بیٹی، ملک کی معروف نیورو لوجسٹ اور مرگی کے امراض کی ماہر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی حکمرانوں اور قوم کو سمجھا رہی ہے کہ پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکے گا جب تک ہم ایک ’’غیرت مند قوم‘‘ نہیں بن جاتے ہیں۔ ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے ریاست کو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی (طب کے شعبے میں ماہر) اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی (تعلیم کے شعبے میں ماہر) جیسے باصلاحیت پاکستانی شہریوں کی قدر کرنا ہوگی۔ عوام اب یقینی طور پر اس بدبودار نظام سے بے زار ہو چکے ہیں۔ ہر الیکشن سے پہلے احتساب اور سسٹم کو درست کرنے کا نعرہ لگایا جاتا ہے مگر پھر الیکشن ہوجاتے ہیں، چہرے بدل جاتے ہیں اور پھر اگلے پانچ سال تک ایسے حکمران آ جاتے ہیں جو گِدھوں کی طرح ملک کو نوچ نوچ کر کھاتے رہتے ہیں اور بیڈ گورننس کی بدترین مثال قائم کررہے ہوتے ہیں اور ملک کی تباہی کا یہ تماشا ریاست اور سسٹم دیکھتا رہتا ہے۔ اس لوٹ کھسوٹ اور بیڈگورننس کو روکنے کا انتظام کہیں بھی، کسی ادارے کے پاس نظر نہیں آتا ہے۔ سارے مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ موروثی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا، اقتدار پر طبقہ اشرافیہ کا قبضہ ختم کرنا ہوگا اور ریاست کو عام پاکستانی شہریوں کی قدر کرنا ہوگی۔