اردو شاعری میں فن کے لحاظ سے مرزا غالب کا شمار اردو زبان کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے، غالب کی شاعری پر مولوی مرزا محمد عسکری کا محققانہ لیکچر 1925 میں لکھنؤ میں شایع ہوا تھا جس میں انہوں نے غالب کے مذہبی عقائد کا بھی احاطہ کیا ہے جس کے مطابق ’’غالب شراب پیتے تھے، روزہ نہیں رکھتے تھے، نماز کے بھی شاید ہی پابند ہوں‘‘۔ ’’ان کا (غالب کا) دلی اعتقاد تھا کہ خدا بے نیاز اور رسول اس کا بندہ نواز ہے، جو کچھ کروں گا بخش دیا جاؤں گا کیوں کہ وہاں بخشش رحمت و شفاعت پر موقوف ہے نہ کہ ہمارے اعمال کی جانچ پڑتال پر‘‘۔ ’’مرزا صاحب گناہ کے مرتکب ہوتے تھے مگر عادت کی مجبوری سے، ڈھٹائی سے نہیں‘‘ مولوی مرزا محمد عسکری کے غالب پر اس تبصرہ کے بعد غالب کے اس مشہور شعر پر نظر ڈالیں تو بات با آسانی سمجھ میں آنے والی ہے۔
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
یہ شعر ہمیں معاصر اخبارات کی اس خبر سے یاد آیا کہ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف ماہ رواں میں عمرہ کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرتے ہوئے وطن عزیز پہنچیں گے، ایک مسلمان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اسے کعبۃُ اللہ کی حاضری، مسجد نبوی کی زیارت اور روضہ رسول پر حاضری اور آپؐ پر بے شمار صلواۃ و سلام کے مواقع بار بار حاصل ہوتے رہیں، ایک مسلمان کے لیے وہ کیا ایمان اور یقین سے لبریز کیفیت ہوتی ہے کہ جب وہ روضہ رسول کے سامنے دست بستہ کھڑا ہو، آنسو زار و قطار اس کی آنکھوں سے رواں ہو کر اس کے رخسار پر بہہ رہے ہوں اور وہ ماضی کے آئینے میں اپنے کیے اعمال کو دیکھ رہا ہو، پشیمان ہو، دل کی گہرائیوں سے نبی کریمؐ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے اپنے اللہ سے معافی کا طالب ہو۔
اب کے نواز شریف کا روضہ رسول پر حاضری کا موقع ہوگا تو ان کے حافظے میں مسجد نبوی سے وابستہ ماضی کی یادیں ضرور آئیں گی جب گنبد خضرا اور روضہ رسول کے پاس سراج الحق سے ملاقات میں کی گئی بات چیت کی بازگشت ان کی سماعتوں سے بار بار ٹکرا رہی ہوگی، دراصل یہ بات چیت کیا تھی، یہ تو نواز شریف کا سراج الحق سے مسجد نبوی میں اسی گنبد خضراء کے سائے میں اور روضہ رسول کے قریب ایک وعدہ تھا کہ وہ پاکستان جا کر سودی نظام کا خاتمہ کریں گے اور میڈیا پر اسلام مخالف مواد کو روکیں گے، مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو سکے، زیادہ افسوس کی بات یہ تھی کہ جب سراج الحق نے مدینے سے واپسی کے بعد سودی نظام کے خاتمے کے لیے رٹ دائر کی تو نواز شریف نے ان کے وکلا کے مقابلے میں سودی نظام کے تحفظ کے لیے اپنے وکلا کی ٹیم لا کر مقابلہ شروع کیا، اگر دیکھا جائے تو یہ ایک بہت لرزا دینے والا اقدام تھا جس کی آج بھی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، ہمیں نہیں علم کہ اس مرتبہ اگر نواز شریف روضہ رسول پر حاضر ہوئے تو ان کی کیا کیفیت ہوگی؟ لیکن غالب جیسا شاعر بسبب بشری کمزوری اپنے اعمال پر شرمندہ تھا وہ اپنی خلاف ِ اسلام باتوں پر قابو نہ پا سکا اور اپنی ندامت کا اظہار بھی کردیا کہ شرمندگی کی وجہ سے وہ کعبہ، اپنے ربّ کے در پر جانے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔
صرف مسلم لیگ (ن) ہی نہیں بلکہ اب تک کے تمام حکمران طبقے کسی نے بھی سودی نظام کے خاتمے کے لیے اور نظام زکواۃ کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ ان لوگوں کی تو بات چھوڑ دیجیے جو یقین ہی نہیں رکھتے ہیں کہ سود کے بغیر بھی بھلا ملک کا معاشی نظام چل سکتا ہے؛ لیکن وہ لوگ جو حرف آخر اور پتھر کی لکیر کی طرح ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن کے ہر حکم پر اگر ربّ نے فرمادیا کہ رک جاؤ تو رک جانا ہے، وہ کیوں ایسے لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں جو قرآن مجید کے اس حکم کو نافذ نہیں کرتے؟ سورہ البقرہ آیت 275 میں سود خور کو مجنون اور مخبوط الحواس سے تشبیہ دی گئی ہے، فتح مکہ کے بعد سورہ البقرہ کی آیت 279 کے نزول کے بعد سودی کاروبار کو ایک فوجداری جرم قرار دیا گیا اور نبی کریمؐ نے آگاہ فرمادیا کہ: سودی لین دین سے باز نہ آنے والے لوگوں کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ ’’سود کا سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ جیسے اپنی ماں سے زنا کرے‘‘۔ قرآن کریم کے اس واضح حکم اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہمیں اپنے ووٹ دینے کے رویوں کا جائزہ لینا ہوگا، کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے جس کے ذریعہ ہم کسی شخص اور اس کی جماعت کو ملک کے تمام معاملات کا بشمول قانون سازی اختیار دیتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مسلم لیگ نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو جدوجہد پر آمادہ کیا تھا اور اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ایک خطہ زمین مل جائے تو وہاں اللہ کا دیا ہوا نظام نافذ کریں گے اور کہاں یہ وقت آگیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکمرانوں کو بار بار جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ خالق کائنات کے دیے ہوئے قوانین کا نفاذ اس زمین پر کیا جائے جو حاصل اس وعدے پر کی گئی تھی کہ یہاں اسلام کا نظام قائم کیا جائے گا۔
پاکستان آج جن معاشی مسائل کا شکار ہے اس کا حل قرآن مجید میں بہت واضح طور سے پیش کیا گیا ہے، یہ صرف مسلم لیگ (ن) کی بات نہیں بلکہ اب تک جس جس کو بھی اللہ تعالیٰ نے پاکستان پر حکمرانی کا موقع دیا اس کی بھی ذمے داری بنتی تھی کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عملی اقدام کرتا اور ملک کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے سنوارنے کے لیے اور ترقی کے لیے سود کے نظام کو ختم کرنے کی کوششوں کا آغاز اور زکواۃ کے نظام کے نفاذ کی کوششیں کرتا لیکن صد افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ سورہ طہٰ آیت 124 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور جو میرے ’’ذکر‘‘ (درس نصیحت) سے منہ موڑے اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔ سود کے متعلق قرآن کریم میں واضح ہدایات موجود ہیں جن میں سود کو اللہ اور رسول کے خلاف کھلی جنگ قرار دیا گیا ہے، اب نہ کوئی نبی آنے والا ہے نہ آیات کا نزول ہوگا، پس جو بھی اللہ اور اس کے رسول کے مد مقابل آنے سے ڈرتا ہے اس کی دہری ذمے داری ہے کہ جن جن کو بھی پاکستان میں حکمرانی کا موقع ملا ہے اور انہوں نے سود کا خاتمہ نہیں کیا ان تمام سے اپنے ربّ کی اطاعت میں کنارہ کش ہو جائے اور جو لوگ بھی اس سودی نظام کو ختم کرنے اور زکواۃ کے نظام کو قائم کرنے اور کرانے کے لیے کوشاں ہیں ان کی بھرپور تائید کریں اور ان کے پشتیبان بن جائیں۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا‘‘۔ (القران)