غیر ملکی تارکین وطن، جو پاکستان میں مقیم ہیں یکم نومبر تک اس مملکت کی سرزمین کو خیر باد کہہ کر اپنی دھرتی کی طرف لوٹ جائیں جہاں سے وہ آئے تھے اور مہمان بنائے گئے تھے، پاکستان میں ان تارکین وطن کی تعداد کوئی نصف کروڑ افراد پر مشتمل ہے جو افغانستان، برما وغیرہ سے پاکستان میں وقتاً فوقتاً آئے اور انہوں نے نہ صرف قدم جمالیے بلکہ ایک غالب اکثریت نے شناختی کارڈ بنا کر شہریت کے حقوق بھی حاصل کرلیے۔ چونکہ ان میں ایک بڑی تعداد افغانیوں کی ہے جو روسی جارحیت کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے اور پاکستان نے اچھے پڑوسی اور اسلامی روایت کی پاسداری میں ان کو ملک میں رہائش کی اجازت دی۔ یہ ضیا الحق کا دور تھا جو اسلامی کردار کے حامل تھے، روس افغانستان سے پٹ پٹا کر رخصت ہوا تو چاہیے تو یہ تھا کہ مہمان واپس اپنے ملک افغانستان لوٹ جاتے مگر پاکستان، سعودی عرب، سوڈان سمیت مسلم امہ کی بھرپور جہاد کی حمایت نے روس کو واپس کیا لوٹایا افغان مجاہدین اقتدار کی جنگ میں برسر پیکار ہوگئے۔ ان کی سرکوبی کے لیے امریکا کی آشیرباد سے طالبان نامی تنظیم کو مدارس کی افرادی قوت کے ساتھ اس وقت کے پاکستان کے وزیرداخلہ نے افغانستان کی حکومت ہتھیانے کے لیے روانہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ طالبان فاتح افغانستان بن گئے۔ اور پاکستان میں خوشی کے شادیانے بج گئے۔
طالبان نے جہادی گروہوں پر کیا فتح پائی ان کو اپنے محسن پاکستان پر فتح کا شوق چرآیا اور ٹی ٹی پی کی شاخ بھی کھڑی کردی گئی۔ اور پاکستان دھماکوں سے گونج اٹھا۔ پھر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعے نے امریکا اور ناٹو کو افغانستان پر حملے کے لیے اکسایا اور وہ پہاڑوں سے سر ٹکرا کر لوٹ گئے تو اس دوسری کامیابی پر ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان جو ان افغانوں کا 1979ء سے میزبان بنا ہوا تھا اس کے استحکام کا سوچتے یہ بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے اس سے ہاتھ ملانے اور کچھ کمانے میں مصروف عمل ہوگئے اور یوں ٹی ٹی پی بلوچستان لبریشن آرمی جسمم را کی اک چوکڑی بن گئی۔ سرمایہ کاری بھارت کی رہی اور پاکستان میں موجود افغانی کارندے ان دہشت گردوں کے سہولت کار بن گئے اور پاکستان میں انہوں نے کے پی کے میں ریاست کے اندر ریاست قائم کرلیں اور پاکستان کے قانون کے لیے نوگوایریا بنادیا۔ ہر دہشت گردی کا سرا اس چوکڑی کے گرد گھومتا رہا اور سہولت کار یہ غیر ملکی تارکین وطن پائے گئے۔ کیانی کے دور میں ریاست کے اندر ضرب عضب سے ان قائم ریاستوں کو اکھاڑ پھینکا گیا اور بتادیا گیا کہ مہمان داری کا مطلب یہ نہیں کہ تم مالک بن جائو۔ اس ناکامی کے بعد انہوں نے ڈیونڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور سرحد کو متنازع قرار دیا اور گھنائونے کھیل منی لانڈرنگ، اسمگلنگ کا کام پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنے اور افغانستان کی معیشت کو مضبوط تر بنانے کا تیز تر کردیا۔
یاد رہے کہ 1988ء میں راقم افغانستان گیا تو وہاں کے سکہ کی حالت یہ تھی کہ پاکستان کے سو روپے کے عوض افغانی ایک لاکھ دس ہزار ملتے تھے اور افغانی نوٹ ردی کی طرح سڑکوں پر ڈھیروں کی صورت پڑے ہوتے تھے۔ کوئی خریدار نہ تھا، اس افغان کرنسی کو ان اسمگلروں نے جو کھاتے پاکستان کا اور گاتے افغانستان کا ہیں نمک حرام کہہ سکتے ہیں نے افغانستان کو ڈالروں کی اسمگلنگ پاکستان سے اتنی کی کہ افغانی سکہ پاکستان کے سکے سے ڈالر کے مقابلہ میں تین گنا طاقت ور ہوگیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت اس کو پڑوسی کے حقوق کی تلفی سمجھ کر روکتی اُس نے جو آئے اُسے حلال سمجھو کی پالیسی پر عمل کیا۔ اور پاکستان کو دہشت گردی میں الجھائے رکھنے کی حکمت عملی اپنائی اور افغانستان میں قائم دہشت گردوں کے ٹھکانے جو پاکستان کی سرحد کے قریب تھے برقرار رہنے دیے۔ یوں افغانستان نے بھارت کو جو ہندومت کا سرغنہ ہے تقویت کا سامان کیا۔ مسلمان تو جسد واحد ہوتے ہیں کاش کہ افغان حکمران یہ سوچتے اور 40 سال تک افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کو یاد رکھتے یہ احسان وہ قیامت تک نہیں اتار سکتے پاکستانیوں نے روسی جارحیت کے دورانیے میں لہو کے نذرانے دیے، اور اپنے خون سے جہاد کو سبزہ زار کیا، سب بھول گئے اور اب لگے ہیں غرانے، سو پاکستان کو بھی مجبوراً ان مہمانوں کو جو غیر قانونی طور پر پناہ گزین ہیں واپس وطن بھیجنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
افغانستان اب جارحیت غیر ملکی سے آزاد اور مضبوط معیشت کا حامل ہوچکا ہے تو اصولی کچھ ہے واپس وہاں لوٹ جائو۔ گیارہ لاکھ کے قریب غیر قانونی تارکین وطن کا بوجھ پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت نہیں اٹھا سکتی اور دشمنوں کو سہولت کاری اب قابل برداشت نہیں۔ اس فیصلے پر افغان حکومت کا تلملانا کوئی مناسب بات نہیں اس کو تو خوش ہونا چاہیے کہ اس کے دھرتی کے باسی واپس لوٹ رہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے خوب تبصرہ کیا کہ پاکستان نے 40 سال افغانیوں کی میزبانی کی ہے اب افغانستان میں استحکام آرہا ہے اور دنیا طالبان سے تعلقات بحال کررہی ہے تو اسلام آباد اور کابل کو بھی چاہیے کہ وہ مل کر خطے کی ترقی، امن، استحکام کے لیے کام کریں۔ پاکستان نے گزشتہ عرصہ سے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر افغانستان کا ساتھ دے رہا ہے بجا طور پر پاکستانی قوم افغان حکومت سے توقع رکھتی ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے کردار ادا کرے۔ حکومت پاکستان کے اداروں نے اب نہیں تو
کبھی نہیں کے اصول کے تحت ان غیر ملکی تارکین کو بے دخل کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ افغان حکومت بھی فتح کے نشہ کی سرشاری سے نکل کر اپنے باشندوں کو خوش دلی سے قبول کرے۔ ورنہ جو اپنوں کا بھی نہیں ہوتا وہ دوسروں کا کیوں ہوگا کا داغ اپنے دامن پر نہ لگائے۔ 40 سال کے بعد بنی اسرائیل بھی اپنے ملک لوٹ لیے تھے۔ 40 سال ان کو پاکستان میں بھی پورے ہوگئے۔ اب ان کا لوٹ جانا ہی صراط مستقیم ہے جو اللہ امتحان حکمرانوں کو دکھائے۔ اب اطلاعات ہیں کہ افغان سفارتخانے کا غیر قانونی مقیم افغانیوں کی واپسی کے معاملے پر پاکستان سے اتفاق ہوگیا ہے یہ تذکرہ بھی کرتا ہوں کہ جب ہم چارکنی ٹیم کی صورت میں جماعت اسلامی پاکستان کے توسط سے جہاد افغانستان کے مشاہدہ کے لیے مشہور زمانہ افغانستان کی تورا بورا پہاڑی سرنگوں میں پناہ گزین ہوئے تو میں نے افغان کمانڈر سے بات رکھی کہ مجھے کیا افغان شہریت مل سکتی ہے تو اس کا دوٹوک جواب تھا ہرگز نہیں اور یہاں تھوک کے بھائو نہ صرف ان پناہ گزینوں نے پاکستان کی شہریت حاصل کرلی بلکہ شادی مرادی کا خوب سامان کرکے بھاری اثاثوں کے مالک بن گئے، منشیات اور اسلحہ کے پھیلائو میں افغانی سماج دشمن عناصر کا ہاتھ ڈھکا چھپا نہیں۔