نقطہ نظر

1489

لانڈھی کاٹیج انڈسٹری کے متاثرین اور کے ایم سی
آج سے 30 سال قبل اپریل 1993 میں کے ایم سی نے ’’لانڈھی کاٹیج انڈسٹری‘‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ کا اعلان کیا اور اخبارات میں اشتہارات دیکر 200 مربع گز کے پلاٹوں کے لیے کراچی کے بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں سے درخواستیں 100 روپے نا قابل واپسی فیس کے ساتھ طلب کیں۔ جس میں کراچی کے تقریباً 35 ہزار نوجوانوں نے درخواستیں جمع کروائیں۔ جن سے کے ایم سی کو لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی۔ اس پروجیکٹ کا مقصد کراچی کے بیروزگاروں ہنر مند نوجوانوں کو با عزت روزگار کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس اسکیم میں بیروزگار نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ کر حصہ لیا کہ ہمارے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے بیروزگار افرادکو روزگار ملے گا اور حکومت کو ٹیکس بھی ملے گا۔

تین ماہ بعد جولائی 1993 میں کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی ہوئی اور 2334 درخواست گزار کامیاب قرار پائے۔ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھا۔ الاٹیز نے پلاٹس کی تمام ادائیگی کے ایم سی کے شیڈول کے مطابق بروقت کر دی جس سے کے ایم سی اس مد میں 4 کروڑ 66 لاکھ سے زائد جمع شدہ رقم سے تاحال منافع کما رہی ہے۔ جبکہ اس اسکیم کے متاثرہ الاٹیز پلاٹوں کے حصول کی آس لگائے اب بڑھاپے کی دہلیز پار کر چکے ہیں لیکن افسوس ہے کے ایم سی اب تک الاٹیز کو پلاٹس نہیں دے سکی۔ اس سلسلے میں متاثرین نے کے ایم سی دفاتر کے کئی بار چکر لگائے۔ متعلقہ افسران سے بھی ملے، مظاہرے کیے۔ پریس کانفرنسیں بھی ہوئیں۔ اخبارات میں اس مسئلہ کو اجاگر کیا۔ جس کے نتیجے میں ایڈمنسٹریٹر، میئر، گورنر سندھ اور دیگرمتعلقہ ذمے دار افسران کے بیانات اخبارات کی زینت بھی بنتے رہے۔ لیکن مسئلہ حل نہ ہوا۔ صرف یہ ہی نہیں کے ایم سی کے دوسرے منصوبے جن میں اورنگی کاٹیج انڈسٹری اور بلدیہ کاٹیج انڈسٹری جو لانڈھی کاٹیج انڈسٹری کے بعد متعارف کروائے گئے تھے وہ بھی ابھی تک التوا کا شکار ہیں۔

5سال قبل قومی احتساب بیورو (کراچی) نے بھی اخبارات میں اشتہارات دیکر مختلف ہائوسنگ اسکیموں ؍ سوسائٹیوں کے متاثرین سے (جس میں کاٹیج انڈسٹری پروجیکٹ آف کے ایم سی کراچی بھی شامل ہے) شکایات اور درخواستیں طلب کیں۔ میں نے بھی درخواست دستاویزی ثبوت کے ساتھ جمع کروائی۔ لیکن اس مسئلہ کے حل کے لیے اب تک کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ ایڈمنسٹریٹر اور میئر کراچی کو ای میل بھی کیں لیکن کوئی جواب نہ آیا۔

اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ اس پروجیکٹ کی زمین پر تجاوزات جن میں بھینسوں کے باڑے بھی شامل ہیں قائم ہو چکی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کے ایم سی کے ذمے دار افسران غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے گزشتہ صوبائی حکومت کراچی میں قبضہ کی گئی زمینوں پر بنے گوٹھوں کی قانونی شکل دینے کی تیاری کر رہی تھی۔ جس سے الاٹیز اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ کہیں حکومت لانڈھی کاٹیج انڈسٹری کے پروجیکٹ کی زمین پر بنی غیر قانونی تجاوزات کو ریگولرائز نہ کر دے۔ اس پروجیکٹ کے الاٹیز میں کچھ متاثرین نے سندھ ہائی کورٹ میں 2021 میں ایک پٹیشن بھی دائر کی ہے جس کی چند سماعتیں بھی ہوئیں جو حوصلہ افزا تھیں لیکن مخالف پارٹی (کے ایم سی) اپنے روایتی تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے الاٹیز کو پریشانی ہے۔

لہٰذا میری تمام متعلقہ اداروں (کے ایم سی، سندھ لینڈ ریوینو بورڈ، قومی احتساب بیورو کراچی، ڈاریکٹرکچی آبادیز) گورنر سندھ، نگراں وزیر اعلیٰ اور خاص طور مئیر کراچی مرتضی وہاب سے درخواست ہے کہ اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور لانڈھی کاٹیج انڈسٹری کی زمین سے ناجائز قبضہ ختم کروا کر الاٹیز کو ان کے پلاٹس کا فوری قبضہ دلوائیں۔ تاکہ وہ اپنی زندگی میں کوئی کاروبار شروع کر سکیں۔ جس کے لیے ہم ان کے مشکور ہوں گے۔
شیخ محمد اسحاق، پنجاب کالونی کراچی