پاکستان میں دھرنا سیاست کے موجد جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم تھے جنہوں نے بے نظیر حکومت کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد میں تاریخی دھرنے دے کر ان کی حکومت کو چلتا کیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کا یہ آزمودہ نسخہ پاکستان کی سیاست کا اب ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس کو دیگر جماعتوں نے بھی آزمایا ہے۔ عمران خان نے ڈی چوک پر 126دن کا دھرنا دیا تھا اور اس دھرنے کے نتیجے میں ہی انہیں مقبولیت حاصل ہوئی اور وہ اقتدار کی کرسی تک جا پہنچے۔ 2021 کے دسمبر کے آخری دنوں میں جماعت اسلامی کراچی نے بھی سندھ حکومت کی جانب پیش کردہ ظالمانہ بلدیاتی ایکٹ کے خلاف سندھ اسمبلی پر 29 روز تک دھرنا دیا اور مطالبات کی منظوری کے بعد یہ دھرنا ختم ہوا۔ اس علاوہ تحریک لبیک کے علامہ خادم رضوی نے بھی راولپنڈی فیض آباد میں متعدد مرتبہ دھرنے دے کر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔
ملک میں بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ہوش ربا مہنگائی کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کی قیادت میں لاہور، پشاور، کوئٹہ کے بعد اب کراچی کے گورنر ہائوس پر 8 اکتوبر سے دھرنا دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے بھرپور طریقے سے تیاریاں کی گئی ہیں اور دھرنے میں عوام کی بھرپور شرکت کو یقینی بنانے کے لیے زندگی کے ہر طبقہ فکر کے افراد جن میں تاجر برادری، مزدور، طلبہ، علماء کرام، نوجوان، شاعر ادیب، اساتذہ کرام، ڈاکٹر، انجینئر، خواتین کو بھی دھرنے میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ پاکستان کے غریب عوام اس وقت انتہائی مشکل حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں حکمراں ٹولے نے عوام سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا ہے اور ان کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے غریب عوام پر پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں کے بم برسائے جارہے ہیں آئی پی پیز کے ناجائز معاہدوں سرکاری افسران اور مراعات یافتہ طبقے کی عیاشیوں کے لیے مفت بجلی، مفت پٹرول بڑی بڑی گاڑیوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی غلامی اور وڈیرہ شاہی، جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے غریب عوام کا بدترین استحصال ہورہا ہے۔
کراچی جو پورے ملک کی معیشت کا پہیہ چلاتا ہے ملک کے حاصل شدہ ٹیکس میں اس کا حصہ 70فی صد سے بھی زائد ہے لیکن بے حس اور بے حمیت حکمرانوں نے اس سونے کی انڈا دینے والی مرغی کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ 70 سال سے اشرافیہ اور مخصوص طبقے نے کراچی اور اس کے شہریوں کا بدترین استحصال کیا ہے۔ کراچی کی حالیہ مردم شماری میں کراچی کے غداروں نے کراچی کی آدھی آبادی کو ہی وڈیروں کے ہاتھوں بیچ ڈالا اور کراچی کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی غضب کر لی گئی ہے جس کی وجہ سے کراچی شہر کی 10 قومی اسمبلی اور 17صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہضم کر لی گئی ہیں۔ کراچی ایک میگا سٹی ہے اور ملک بھر سے لاکھوں افراد اپنے روزگار کے حصول کے لیے اس شہر میں آتے ہیں لیکن ظالم حکمرانوں نے اس شہر کا پانی بند کیا ہوا ہے یہاں پانی ٹینکروں کے ذریعے تو باآسانی مل جاتا ہے لیکن نلکوں میں پانی نہیں آتا یہاں پانی کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس کا بھی بدترین بحران ہے۔ تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ سب برباد ہیں اور کوئی نظام نہیں ہے۔ کراچی کے نوجوانوں میں بہت صلاحیت ہے اور یہاں کے نوجوانوں نے ہمیشہ ملک وقوم کا نام روشن کیا ہے لیکن متعصب حکمرانوں نے تعصب کی انتہا کرتے ہوئے یہاں ظالمانہ کوٹا سسٹم رائج کیا ہوا ہے اور کوٹا سسٹم کے نام پر کراچی کے نوجوانوں پر روزگار کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ کراچی کے ڈومیسائل پر دیگر شہروں کے افراد کو روزگار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نفرت کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اور لسانی سیاست کو تقویت پہنچ رہی ہے۔ نوجوان پاکستان کے حالات سے مایوس ہوکر بیرونی ممالک روزگار کے لیے جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ میں ہی پانچ لاکھ سے زائد نوجوان ملک بھر سے روزگار کے لیے بیرون ممالک روانہ ہوئے ہیں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے لیکن بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور بدامنی کی وجہ سے اب یہاں کے صنعت کار اپنے کارخانوں میں تالے لگا رہے ہیں اور اپنا کاروبار پنجاب، کے پی کے کے علاوہ بنگلا دیش، سری لنکا شفٹ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے حکمراں ٹھنڈے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر عوام کی خوشحالی کے منصوبے ہی بنا رہے ہیں وہ بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ان میں ہمت نہیں کہ اس پر عمل بھی کریں۔
ملک پر مافیائوں کا قبضہ اور راج ہے جنہوں نے ملک میں آٹا، چینی اور ڈالرز کا بحران پیدا کر کے اربوں روپے کمائے اور اپنی تجوریاں بھرکر عوام کا استحصال اور پاکستان کی معیشت کو تباہ وبرباد کیا ہے۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی کی جانب سے ملک کے چاروں صوبوں کے گورنر ہائوس پر دھرنا عوام کے دلوں کی آواز ہے۔ ان مافیائوں سے مقابلے کے لیے پوری قوم کو اب جماعت اسلامی کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوںکا مستقبل محفوظ ہوسکے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سنجیدہ طریقے سے ملک کے حالات کا جائزہ لے اور جماعت اسلامی کے تمام مطالبات پر غور کرتے ہوئے ان منظور کریں اور غریب عوام کو سستی بجلی اور سستا پٹرول فراہم کیا جائے۔ کراچی کے شہریوں کو کے الیکٹرک کے ظلم سے جان چھڑائی جائے اور اس کا لائنس منسوخ کر کے اس ادارے کو قومی تحویل میں لیا جائے۔ جاگیرداروں، وڈیروں پر زرعی ٹیکس لگایا جائے۔ کراچی سمیت ملک بھر کے تمام بلدیاتی نمائندوں کو بھرپور اور مکمل اختیارات فراہم کیے جائیں۔ کراچی کے عوام کو پینے کا صاف پانی ان کے نلکوں سے فراہم کیا جائے اور تمام ہائیڈرنٹس بند کیے جائیں۔ شہر میں بڑھتی ہوئی بدامنی، چوری، ڈکیتی، قتل وغارت گری اور اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی روک تھام کے لیے جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت آپریشن کیا جائے اور جرائم پیشہ عناصر اور ان کے سرپرستوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جماعت اسلامی کے قائدین سے بھی مودبانہ درخواست ہے کہ وہ اس دھرنے کو نشستند، گفتند اور برخاستند تک محدود نہ رکھے اور پوری قوت کے ساتھ احتجاج کیا جائے اور جب تک کراچی کے عوام کے ایک ایک تمام مطالبات منظور نہیں ہو جاتے یہ دھرنا جاری رکھا جائے۔