نادر شاہ بادشاہ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ بھارت آئے تو ان کا شایان شان استقبال کرتے ہوئے بھارت کی اس وقت کی روایت کے مطابق انہیں ہاتھی پر سوار کرکے جلوس نکالنے لگے تو نادر شاہ نے دریافت کیا کہ لگام کہاں ہے تو انہیں بتایا کہ اس کی لگام مہاوت ہے جو اس کو کنٹرول کرتا ہے اور منزل کا تعین کرتا ہے یہ بات سن کر نادر شاہ ہاتھی سے اُتر آیا اور تاریخی جملہ کہا کہ ’’وہ شخص (حکمراں) کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا جس کی لگام دوسرے کے ہاتھ میں ہو‘‘۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی لگام نظریہ پاکستان کے بجائے عالمی استعمار کے ہاتھوں میں رہی ہے اور یہ بھٹکا ہوا راہی کبھی مارشل لا کی گھاٹی میں اتار دیا جاتا ہے تو کبھی صدارتی، پارلیمانی، شورائی، جماعتی، غیر جماعتی تجربے سے گزارا جاتا ہے۔ ہر تجربہ ناکامی سے ہی نہیں دوچار ہوتا ہے ملک کو خسارے سے دوچار بھی کرکے چھوڑتا ہے۔ اب نگراں حکومت کی جوڑی منکر نیکر کی صورت ملک اور قوم کی گردنوں پر مسلط ہے، حکمرانِ وقت دورے کی صورت تفریح کررہے ہیں اور طے شدہ ٹائم فریم سے بڑھ کر بیرون ملک وقت گزارتے، نگراں حکومت کی چھان پھٹک کس تجربہ گاہ اور کس کی اجازت سے ہوئی، کون شیر کو کہے کہ تیرے منہ سے بو آتی ہے قوم کی امنگوں کا خون تو پون صدی سے ہوتا چلا آرہا ہے مگر اس ماہرین کی حکومت سے عالمی بینک نے عوام اطمینان کا اظہار ان کے اللے تللے اخراجات سے سرمایہ کاری کے ڈوبنے کے خطرے کے پیش نظر اور کہہ ڈالا کہ اہم وفاقی اور صوبائی اداروں پر جانچ پڑتال کے لیے نمائندوں پر مشتمل نیشنل کونسل آف منسٹرز بنانے کی تجویز دی ہے تا کہ خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے وفاقی، صوبائی اداروں کی پالیسیوں اور احتسابی نظام کی بیک وقت مربوط اور مضبوطی کے خلا کو پُر کیا جاسکے۔ عالمی بینک نے یہ تجویز ادارہ کمزوریوں اور اختیارات کی نامکمل منتقلی کو ترقی اور گورننس کے کلیدی چیلنجز کے طور پر اجاگر اور ٹیکنوکریٹ حکومت سے بہت کم امیدیں وابستہ کرتے ہوئے واشنگٹن میں مقیم ادارے نے پالیسی ایڈوائس میں بتایا کہ ٹیکنو کریٹک مداخلتوں سے پاکستان کے ادارہ جاتی ماحول کو مختصر وقت میں تبدیل کرنے کا امکان نہیں لیکن بگڑتے معاشی حالات آبادیاتی تبدیلی اور سوشل میڈیا سے مثبت تبدیلی کے لیے کچھ مواقعے پیدا ہوسکتے ہیں۔
پاکستان نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے شروع کی گئی اختیارات کی منتقلی پر موثر طریقہ سے عملدرآمد نہیں کیا اور وفاق منتقل کیے جانے والے بہت سے شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے جس سے مالی اخراجات میں اضافہ اور احتساب کا عمل دھندلا رہا ہے۔ لہٰذا موجودہ مالیاتی انتظامات، محصولات کی وصولی کے لیے جوابدہی کو کمزور اور ٹیکس انتظامیہ کو پیچیدہ بنادیتے ہیں۔ لو آگئی نہ تجویز مائی باپ عالمی ادارے کی کہ ماہرین کے نام جو ماہر وزارتوں پر بٹھائے ہیں حکمراں بنائے ہیں یہ کسی کام کے نہیں ماسوائے اپنے مطلب کی براری کے، اس قحط الرجال میں اچھے صالح دیندار خوف خدا کے حامل صاحب علم و فہم صاحب حکمت افراد کیسے مناصب جلیلہ پر لائیں اس جمہوری طریقہ سے آنے کے امکان نہیں تو نہ کل ایسے عمل سے اہل افراد آگے آئے۔ اے کے بروہی جیسا قانون داں ایک منگی کے ہاتھوں ووٹوں کی پرچی سے مات کھا گیا۔ میاں طفیل محمد جسے متقی انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ کیونکہ سیاسی زمین نظریہ اسلام عالمی استعمار کے لیے استعمال ہونے سے انکار کیا۔ غداروں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ صدر محمد ایوب خان نے فرینڈ ناٹ ماسٹر لکھی ناگوار گزری تو اقتدار سے بے دخلی عمل میں آگئی۔ پی پی پی کے اولین جنرل سیکرٹری جے اے رحیم نے اخبار جہاں کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پی پی پی کے قیام کا فیصلہ امریکی مشاورت سے ہوا، اور بھٹو نے اس کے اعلان سے قبل امریکا کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے ملاقات کی تھی۔ پھر یہی ذوالفقار بھٹو ایٹمی منصوبہ، اسلامی سربراہ کانفرنس، قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے جیسے جرأت مندانہ فیصلے کی بدولت امریکا کی آنکھ کا کانٹا بنے تو فوج کو ایک مرتبہ پھر اقتدار میں لانے کا فیصلہ ہوا۔
جنرل محمد ضیا الحق نے چار اور پانچ جولائی کی درمیانی شب امریکی عہدیدار سے ملاقات کی ملک میں مارشل لا لگ گیا۔ بھٹو سے نجات مل گئی۔ حلوے کی دیگیں چڑھ گئیں۔ جنرل محمد ضیا الحق نے اقتدار کے دورانیہ میں بھٹو کا توڑ کرنے کے لیے پنجاب سے محمد نواز شریف کی صورت قیادت کو ابھارا۔ افغانستان میں روس کی جارحیت کی کلائی مروڑنے اور امریکا کے روایتی حریف روس کو شکست کے افرادی اسباب فراہم کرنے کی بدولت امریکا کے آنکھ کا تارا بنے، پھر جب روس پسپا ہوا تو بقول سردار عبدالقیوم کو امریکا نے جنرل محمد ضیا الحق کو جو اسلام کے نفاذ کی سوچ رکھتے تھے اس بارے میں یہ کہا کہ روس تو آگیا اب تم سوچ لو یعنی اپنی سوچ کو بدل لو یا پھر تبدیلی کا عمل ہو۔ یوں پھر غداران وطن و قوم کے طفیل ضیا الحق اور اُن کی پوری ٹیم کو شہید کرادیا۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ جون 88ء میں بے نظیر بھٹو نے وزارت عظمیٰ کے لیے عمر کی شرط 35 سال ہونا پوری کی اور صرف دو ماہ بعد ان کے اقتدار کی راہ یوں ہموار کی گئی اور ملکی اقتدار کا فیصلہ کرنے والی ملکی اور غیر ملکی قوتوں نے بوکھلاہٹ سے بے نظیر اور نواز شریف کو لانے اور ہٹانے کا کھیل شروع کیا۔ اس سے اصل ٹائم لینا اور بے یقینی پیدا کرنا مقصود تھا۔ اور اس وقت میں امریکا کی آشیر باد سے پرویز مشرف، ان دونوں کی سیاست کا باب بند کرنے کے عزم سے میدان میں اترے۔
امریکا، افغانستان میں اپنے حلیفوں کے ساتھ الجھ چکا تھا اور پرویز مشرف ان کے بظاہر حلیف بنے، سہولت کار تھے مگر امریکا نے محسوس کیا کہ یہ دوہرا گیم کررہے ہیں سو ان سے گلوخلاصی کا فیصلہ کیا اور پھر پندرہ سالہ این آر او، پی پی پی، مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم کو دلوا کر دل جوئی سے مطلب براری کا پلان تیار کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے چین سے سی پیک کا منصوبہ بنا کر امریکا کو سیخ پا کر ڈالا تو پھر اشارہ ہوا کہ نیا کھلاڑی جو اناڑی ہو میدان میں لایا جائے اور یوں پھر عمران خان کو تیار کیا گیا مگر وہ معیار پر پورا کیا خاک اترتے مہنگائی نے لوگوں کی گردنوں کو دبوچ لیا۔ ملک کی معیشت جان کو آگئی تو پی ڈی ایم کے ذریعے ملکی معیشت کی ڈی پی سی بھرنے کا تجربہ کیا۔ پرانے آزمودہ کار موجودہ صورت حال کے ذمے دار پھر لابٹھائے گئے۔ محض خانہ پُری اور وقت گزاری ہی رہی۔ قوم کی خاطر ملک کے لیے ناک رگڑنے کا احسان جتانے کی بات تو ہوئی مگر یہ بتانے کی اور پوچھنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ ملک کی حالت ابتر اور تمہاری حالت بہتر کیسے ہوئی۔ مقتدر حلقے اپنے ڈاکٹرائن کا ناکام تجربہ اور معیار ملازمت کا کامیاب تجربہ کرتے رہے۔ ہاں اُن کے پاس مثال ضرور تھی۔ پرویز مشرف کے دور میں متحدہ مجلس عمل کی صورت صوبہ کے پی کے کی کامیابی حکومت سامنے تھی اس کو پروان چڑھاتے مگر کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پھر یہ کھاتے کہاں سے۔ انہوں نے غیر مضر، ہم نوالہ کا انتخاب کیا۔ اب نگراں حکومت ہے یہ کس کا انتخاب ہے۔ مظلوم و مقہور قوم کا تو ہرگز نہیں۔ یہ نوازنے کی تدبیر ہے۔ نگراں حکومت جو کچھ عرصے کے لیے لائی گئی ہے پاک پوتر ہے ان کے گوشوارے حکومت میں لائے جانے کے وقت جمع کیے گئے ہیں اور رخصتی کے وقت بھی لیے جائیں گے؟ کہتے ہیں کہ اس کی روایت نہیں۔ ہاں یہ نگراں بھی تاحیات مراعات کے حقدار ہوں گے۔ لگام نظام اسلام کے ہاتھ میں ہوگی تو بات بنے گی۔