فل کورٹ کا نتیجہ (حصہ اول)

711

جنابِ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے17 ستمبر 2023ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھایا، حالات کی ستم ظریفی دیکھیے! جس صدر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں نااہلی کا ریفرنس بھیجا تھا، اْسی صدر کو اْن سے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لینا پڑا۔ فارسی کی ضرب المَثَل ہے: ’’تدبیر کند بندہ، تقدیر زَند خندہ‘‘۔ یعنی بندہ تدبیر کرتا ہے اور تقدیرِ الٰہی اْسے خَندۂ استہزاء کا نشانہ بنا دیتی ہے۔ اسی کی بابت قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’بے شک وہ اپنی سی چال چلتے ہیں اور میں اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہوں‘‘۔ (الطارق: 15 تا 16) ’’اور انہوں نے اپنی خفیہ چال چلی اور اللہ نے اْن کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ بہتر خفیہ تدبیر فرمانے والا ہے‘‘۔ (آل عمران: 54)

بارہا کے مطالبے کے باوجود چیف جسٹس عمر عطا بندیال جس ’’فْل کورٹ‘‘ سے راہِ فرار اختیار کر رہے تھے اور یہ سلسلہ 2019ء سے چلا آ رہا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منصِب سنبھالتے ہی پہلی عدالت ’’فْل کورٹ‘‘ بنائی۔ یہ بھی سابق چیف جسٹس صاحبان کے لیے ایک ’’تازیانۂ عبرت‘‘ تھا۔ صابر حسین ندوی نے کہا ہے:

اِدھر آ ستم گر‘ ہنر آزمائیں تْو تیر آزما‘ ہم جگر آزمائیں

الغرض ہنر مندوں نے ’’ہنر‘‘ آزمایا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ’’جگر‘‘ آزمایا اور بالآخر جگر کی حوصلہ مندی کے آگے ہنرمند مات کھا گئے۔ حریفوں نے یہ سوچ کر محفل سجائی تھی، چند لمحوں کا انتظار ہے، پھر جامِ فتح نوشِ جاں کریں گے، مگر کاتب ِ تقدیر نے پیغام دیا: ’’ہزاروں لغزشیں حائل ہیں، لب تک جام آنے میں‘‘۔ اسی کو انگریزی میں کہتے ہیں:

There are many slips between the cup and the lips۔

پہلی اختراع جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ کی کہ روزِ اول ہی سے فل کورٹ منعقد کی، جس سے ان کے سابقین لرزاں و ترساں تھے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ سَماعت کو الیکٹرونک میڈیا پر براہِ راست نشر کر دیا۔ فارسی میں کہتے ہیں: ’’آں را چہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک‘‘ یعنی جس کا کھاتہ صاف ہو، اْسے احتساب کا کوئی خوف لاحق نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا: ’’2019ء سے اب تک چار سال ہو گئے ہیں، لیکن عدالت عظمیٰ کی فْل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی، اس دوران مقدمات کی تعداد چالیس ہزار سے بڑھ کر ساٹھ ہزار ہو گئی ہے، چیف جسٹس کی مرضی ہے کہ فْل کورٹ بلائے یا نہ بلائے، اْس کی مرضی ہے بنچ بنائے یا نہ بنائے، کیا یہ رولز تبدیل نہیں ہو سکتے‘‘۔ دن بھر کے اس عدالتی منظر کو تو ہم نے براہِ راست ٹی وی پر نہیں دیکھا، البتہ ٹِکر دیکھے، اخبارات میں جو تفصیلات شائع ہوئیں، انہیں دیکھا اور ان کی روشنی میں جو نتیجہ سامنے آیا، وہ یہ ہے: (1) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر جج صاحبان کی سوچ اور فکر واضح تھی، ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔

(2) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو اہم باتیں کیں، وہ یہ ہیں: (الف) میں نے آئین و قانون کی پابندی کا حلف اٹھایا ہے، عدالتی فیصلوں کا نہیں، بعض عدالتی فیصلے یقینا شرمندگی کا باعث ہیں، مثلاً: سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ پہلے اکثریتی رائے سے صادر ہوا اور پھر نظر ِ ثانی کے مرحلے پر اتفاقِ رائے سے جاری ہوا، کیونکہ اصل فیصلے سے اختلاف کرنے والے جسٹس دْراب پٹیل نے ریویو پٹیشن کے فیصلے میں لکھا: ’’اب طے شدہ کو بدلا نہیں جا سکتا‘‘، کیونکہ سزائے موت کا اصل فیصلہ دینے والے جج تو بدستور اکثریت میں موجود ہیں، اسی طرح میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ ہے، اسی لیے تو ’’عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘ میں اس خرابی کا ازالہ کیا گیا ہے: ’’عدالت عظمیٰ کے نظرِ ثانی بنچ میں وہ جج نہ بیٹھیں، جنہوں نے پہلا فیصلہ صادر کیا ہے، کیونکہ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے فاسد تاویلات کا سہارا لیتا ہے‘‘، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تکرار کے ساتھ یہ کہہ رہے تھے: ’’ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے‘‘۔

(3) اْن وکلا اور بعض ججوں نے اپنے ریمارکس میں کہا: ’’اس ایکٹ میں عدالت عظمیٰ کے دائرۂ اختیار کو محدود کیا گیا ہے‘‘، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا: ’’سپریم کورٹ سے آپ کی مراد کیا ہے، یعنی کیا صرف چیف جسٹس عدالت عظمیٰ ہے اور باقی جج صاحبان کا وجود بے معنی ہے‘‘، اْن کے کہنے کا مطلب یہی تھا کہ عدالت عظمیٰ چیف جسٹس سمیت سارے ججوں پر مشتمل ادارے کا نام ہے اور بحیثیت ِ ادارہ کون سا حق سلب کیا گیا ہے؟ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کے برعکس جسٹس ثاقب نثار ماضی میں یہ قرار دے چکے ہیں: ’’ایگزیکٹیو صرف وزیراعظم کا نام نہیں ہے، بلکہ وزیراعظم سمیت پوری کابینہ کا نام ہے اور اْن کے اجتماعی فیصلے ہی قانونی قرار پائیں گے‘‘، لیکن جج صاحبان کا ایک خاص گروہ یہی اصول اپنے ادارے پر لاگو کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

(4) چیف جسٹس نے کہا: اس ایکٹ میں میرے منصبی اختیار کو تقسیم کیا گیا ہے اور مجھے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، کیونکہ میں ’’مطلق العِنان‘‘ نہیں بننا چاہتا، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا: ’’اس ایکٹ میں تو چیف جسٹس کی بادشاہت کو ختم کیا گیا ہے اور ان کے اختیار میں دو سینئر ججوں کو شامل کیا گیا ہے، گویا اس سے عدالت عظمیٰ پہلے سے زیادہ بااختیار ہو گئی ہے، اس میں جمہوریت آ گئی ہے، عدالت عظمیٰ کے اندر بھی تو جمہوریت ہونی چاہیے‘‘۔ جسٹس اطہر من اللہ نے بھی کہا: ’’پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت کو ختم کیا ہے، اس میں غلط کیا ہے‘‘، یعنی عدالت عظمیٰ کے کسی اختیار میں تو کمی نہیں کی گئی۔ اٹارنی جنرل کی ایسے ہی وضاحت کے بارے میں چیف جسٹس نے کہا: ’’چیف جسٹس کے بوجھ کو بانٹ دیا گیا ہے‘‘۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا: ’’آپ نے میرے موقف کو اَحسن انداز سے تعبیر کیا ہے‘‘۔

(5) چیف جسٹس نے کہا: ہم عدالت عظمیٰ کے تمام فیصلوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، اسی عدالت عظمیٰ نے مختلف ادوار کے ’’مارشل لا‘‘ کی توثیق کی، چیف جسٹس کے آمرانہ اختیارات کی قوم نے بھاری قیمت ادا کی ہے، ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں: ’’یکطرفہ طور پر ریکوڈک معاہدہ ختم کرنے پر ملک وقوم پر عالمی عدالت سے ساڑھے چھے ارب ڈالرکا جرمانہ عائد ہوا، کارکے رینٹل پر بھی ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ عائد کیا گیا، پاکستان اسٹیل کی نجکاری روکے جانے کے بعد ملک و قوم کو اربوں روپے کا بوجھ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے اٹھانا پڑا، یہی حال پی آئی اے کا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ہماری ’’انا‘‘ بہت بڑی ہو گئی ہے، ہمیں اپنی اَنا کو ایک طرف رکھ کر ملک و قوم کے مفاد میں سوچنا چاہیے، زیرِ التوا مقدمات کی تعداد تقریباً 60 ہزار سے زائد ہو چکی ہے، مجھے خدشہ ہے: آج کے دن ڈیڑھ سو مقدمات کا اضافہ ہو چکا ہو گا۔ لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں، عدالت عظمیٰ کی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں کہ اْن کی درخواستوں کو سنا جائے تاکہ انہیں بھی انصاف ملے، ہم قوم کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں اور قوم انصاف کے لیے رْل رہی ہے‘‘۔ اْن کے کہنے کا مطلب یہ تھا: ان برسوں میں عدالت عظمیٰ کو ’’سیاست گری‘‘ کا مرکز بنا دیا گیا تھا، عدالت عظمیٰ پوری قوم کے فریادیوں کو ایک طرف چھوڑ کر ایک فرد یا ایک جماعت کے مفادات کے تحفظ میں مصروف رہی۔

(6) جسٹس سردار طارق مسعود نے پوچھا: ’’اگر ہم اس قانون کو برقرار رکھتے ہیں، تو اس کے بننے اور عدالتی فیصلے کے درمیانی عرصے میں جو عدالتی فیصلے جاری ہوئے، اْن کا کیا بنے گا‘‘، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا: ان پر ’’Past & Close Transaction Rules‘‘ کا اطلاق ہو گا، یعنی انہیں تحفظ دیا جا سکتا ہے اور اگر بعض فیصلوں کو مستثنیٰ کرنا ہو تو ایسا بھی کیا جا سکتا ہے۔

(7) چیف جسٹس نے کہا: ’’عدالت عظمیٰ کے طے کردہ بعض قواعد و ضوابط آئین کے خلاف ہیں، آئین قرار دیتا ہے: ’’دو مہینے میں فوجداری اور سول پٹیشن کی سماعت مقرر ہونی چاہیے‘‘،

لیکن لوگ برسوں سے رْل رہے ہیں، چیف جسٹس کی مرضی ہے: جس پٹیشن کو چاہے لگائے اور جسے چاہے دبائے رکھے، اگر میں کہوں: میں ایک ہفتے کی چھٹی پر جا رہا ہوں تو ’’کاز لسٹ‘‘ بنے گی ہی نہیں اور عدالت معطل رہے گی، یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے‘‘۔

(8) جسٹس منصور علی شاہ نے کہا: ’’ایسا کوئی قانون ہو سکتا ہے جو عدلیہ کو ریگولیٹ کرے‘‘، اس پر جسٹس محمد علی نے کہا: ’’پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے‘‘، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا: ’’رول بنانے کا اختیار عدالت کا ہے‘‘، اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا: ’’کیا پارلیمنٹ عدالتی فیصلوں کو بے اختیار کر سکتی ہے‘‘۔ اس پر میرا جواب یہ ہے: ’’حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے لیے ایک ایکٹ بنایا اور جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے ان کے عہدے کے آخری روز اس ترمیمی ایکٹ کو منسوخ کر دیا اور سابق نیب آرڈیننس کو بحال کر دیا‘‘۔ حضورِ والا! پارلیمنٹ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے: ’’دوتہائی اکثریت سے نیب آرڈیننس کو سرے سے ختم کر دے‘‘۔ یہ سوالات ناقابل ِ فہم ہیں، کیونکہ عدالت عظمیٰ پارلیمنٹ کے فیصلوں کی پیداوار ہے، پارلیمنٹ ہی نے وہ دستور منظور کیا ہے جس کے تحت یہ ادارے تشکیل پائے ہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے: ’’تخلیق اپنے خالق پر غالب آ جائے اور اْسے بے اختیار بنا دے‘‘۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا: ’’پارلیمنٹ پچیس کروڑ عوام کی نمائندہ ہے، کیا سترہ جج منتخب پارلیمنٹ کو عوامی نمائندگی سے محروم کر سکتے ہیں‘‘۔ سب کو معلوم ہے: عوام کو ہر پانچ سال بعد اپنے نمائندوں کے احتساب کا حق مل جاتا ہے اور ووٹ کے ذریعے وہ انہیں قبول یا ردّ کر سکتے ہیں۔ (جاری)

نوٹ: یہ کالم میں نے 26 ستمبرکو امریکا روانگی سے پہلے لکھا، عدالت عظمیٰ میں اگلی سماعت 3 اکتوبر کو تھی، اس میں پیش رفت کے حوالے سے اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس پر واپس آ کر لکھوں گا۔