کسی بھی ملک کے لیے اس کے نوجوانوں کو ملک کی ترقی اور روشن مستقبل کا ضامن سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے نوجوانوں میں سے ہر دوسرا امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ یا کسی بھی یورپی ملک میں زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ آخر ہماری نوجوان نسل کیوں ملک میں رہنا نہیں چاہتی؟ کیوں انہیں ملک میں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے؟ جواب ایک نہیں کئی ہیں، مہنگائی، سیکورٹی کی صورت حال، تعلیم کے مواقع کی عدم دستیابی، باہر کی رنگا رنگ زندگی کی کشش، ٹرانسپورٹ، سڑکوں کی صورت حال اور بھی بہت سی وجوہات آپ کو سننے کو ملیں گی۔ ان وجوہات میں سے سب ہی حقیقت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسائل حل کیے جاسکتے ہیں؟ اور ان کو حل کرنے میں خود نوجوان کیا کردار ادا کررہے ہیں یا کرسکتے ہیں۔ مسائل کا حل اس میں ہے کہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں، کارخانے لگائے جائیں، اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کریں، نوجوانوں کو کاروبار سمیت مختلف شعبوں میں رہنمائی کے لیے مناسب انتظام کیا جائے۔ یہ صحیح ہے کہ اگر نوجوان چاہیں تو اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن وہ اپنی سی وی لے کر نوکریوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے کی بزنس، مینوفیکچرنگ کا چھوٹا یونٹ، گائوں دیہات میں انڈسٹریل کلچر کو فروغ دینا یہ سب کچھ بھی تو موجود ہے۔ ہاں اس میں محنت زیادہ ہے، مشکل کام ہے لیکن کسی دوسرے کی نوکری کے لیے جوتیاں چٹخانے سے تو بہتر ہے۔ نوکری ہی سب کچھ نہیں ہے۔ ہنر مند لوگوں کو مناسب تربیت اور تعلیم کے ذریعے بہتر مواقع حاصل ہوسکتے ہیں وہ اپنی انفرادی آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ مجموعی قومی پیداوار میں بھی اپنا موثر حصہ ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان موقعوں کی سرزمین ہے، البتہ نوجوانوں میں قوت تخیلہ اور قوت متّصورہ کی کمی ہے۔ پھر لوگ اپنے ملک کی چیزیں خریدنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ باہر کی چیزیں استعمال کرنا اسٹیٹس کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ پھر یہ تصور بھی موجود ہے کہ پاکستان میں جو چیز تیار ہورہی ہے وہ ناقص معیار کی ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ درست بھی ہو لیکن ہر معاملے میں یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے۔ اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام نوجوان بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔ وطن سے محبت، وطن کی ترقی اور حالات کی تبدیلی کی سوچ کے ساتھ نوجوانوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سوچو منصوبے بنائو محنت اور مستقل مزاجی سے کام کرو ہم حالات بدلنے میں کامیاب ہوجائیں۔ نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے۔ یہاں آبادی کا 60 فی صد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ امریکا، یورپ اور سب سے بڑھ کر جاپان جہاں نوجوانوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے اور آئندہ برسوں میں یہ مزید تشویش ناک ہوجائے گی، جو اُن کی معیشت کے لیے ایک بوجھ ثابت ہوگی۔ صرف امریکا میں معمر افراد کی تعداد 4 کروڑ بیس لاکھ ہے، جو 2030ء تک مزید بڑھ جائے گی، اُس وقت ہر 5 شہریوں میں سے ایک شہری کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ ہوگی۔ یوں امریکا کو مستقبل میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں سرفہرست سوشل سیکورٹی اور میڈی کیئر کا معاملہ ہے، معمر افراد کی اتنی بڑی تعداد کاروبار خاندانوں کی نشونما اور طبی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں پر بھی اثر انداز ہے اور مستقبل میں مزید ہوگی۔ اس کے برخلاف پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن قومی پروگرام نہ ہونے کے باعث نوجوان بے روزگار ہیں یا کوئی انتہائی کم معیار کا کام کرنے پر مجبور ہے۔ پھر ہنر مند اور ذہین افراد کی بیرونی ملک منتقلی ایک بڑا چیلنج ہے۔ یوٹوپیا ایمزون کے پلیٹ فارم پر سامان فروخت کرنے والی کمپنیوں کی ریٹنگ میں 10 بہترین کمپنیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کے مالک کہتے ہیں کہ ’’جب میں امریکا آیا تو سافٹ انجینئر ہونے کے باوجود مجھے ائرپورٹ سیکورٹی گارڈ کی نوکری کرنی پڑی اس دوران سخت سردی کے باعث میں بیمار ہو کر کئی دنوں تک اسپتال میں داخل رہا۔ وہ واپس وطن آئے اور کاروبار کا سوچا۔ انہوں نے بتایا کہ یوٹوپیا ڈیلر نے مختصر عرصے میں یہ مقام حاصل نہیں کیا۔ بلکہ ان کی کمپنی نے اس درجے تک پہنچنے میں پہلے بہت چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیا اور انتھک محنت سے یہ مقام حاصل کیا۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ کی ضرورت کے لحاظ سے کچھ نیا اور جدید متعارف کیا جائے، محنت ایمان داری اور مستقل مزاجی نوجوانوں کے لیے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو خدا نے ذہانت اور صلاحیت سے نوازا ہے۔ ایک طرف والدین کی بھرپور توجہ اور رہنمائی اور دوسری طرف حکومت کی ان کے لیے بہترین تعلیم بہتر نصاب اور بہتر اور معیاری روزگار کے مواقع پر توجہ بہت کچھ بدل سکتی ہے۔