ان دنوں وطن عزیز میں الیکشن کرانے کا مطالبہ اس شدت اور تواتر سے کیا جارہا ہے کہ جیسے ملک کے تمام مسائل و مصائب کا حل انتخابات ہی میں ہے حالانکہ انتخابات کے بعد نتائج کو نہ کبھی پہلے تسلیم کیا گیا ہے اور نہ اب کیا جائے گا کیونکہ من حیث القوم ہم انتہا پسند ہیں اور انکار انتہا پسندی کا بنیادی اصول ہے۔ شیطان کا وجود انتہا پسندی کے نتیجہ میں ظہور پزیر ہوا تھا علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ انتخابات کے بعد کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی صرف چہرے تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اور اب بھی انتخابات کے بعد صرف چہرے ہی تبدیل ہوں گے، عوام کے حالات نہیں بدلیں گے وہ آج بھی مہنگائی اور بے روزگاری کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں کل بھی دھنسے رہیں گے البتہ حکمرانوں کے عزیز و اقارب کے وارے نیارے ہو جائیں گے، ملازمت سیاسی کارکن کو ملے گی، عام آدمی کو رشوت و سفارش کے بغیر ملازمت نہیں ملے گی، ہمارا حکومتی نظام ایسے خطوط پر استوار کیا گیا ہے جو استواری بشرط وفاداری سے مشروط ہے۔
ذرائع ابلاغ سے وابستہ جو افراد حکومت کے گن گاتے ہیں ان کی رادھا کو نو من تیل ملتا رہتا ہے اور جو لوگ عوام کی بات کرتے ہیں ان کی رادھا کے پائوں سے پازیب سے اُتار لی جاتی ہے اور یہ اُتار چڑھائو اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک جمہوریت کے نام پر آمریت قائم رہے گی، اور جمہوریت کے نام پر آمریت اس وقت تک مسلط رہے گی جب تک عوام کی حکومت قائم نہیں ہوتی، اور عوامی حکومت اس وقت ہی معرض وجود میں آئے گی جب جمہوریت پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
میاں نواز شریف پر برا وقت آیا تھا تو اس وقت اس امکان کا اظہار کیا گیا تھا کہ برسوں کے بعد تو گھوڑا بھی سر سبز و شاداب ہو جاتا ہے، میاں نواز شریف کا بھی برا وقت گزر جائے گا اور اس امکان کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا گیا تھا کہ وہ برسر اقتدار بھی آسکتے ہیں، مگر ان کے اقتدارکو ایک بری خبر قرار دیا گیا تھا کیونکہ برسر اقتدار آکر میاں صاحب نکالنے والوں کے کڑاکے نکالنے سے بالکل گریز نہیں کریں گے، کہ یہ گریز پائی ان کی انا کے خلاف ہو گی، جو ملک و قوم کے لیے نیک شگون نہیں ہو سکتی اس تناظر میں میاں نواز شریف کی آمد عدالتی تاریخیں بنتی گئیں کیونکہ وہ برملا اس عزم کا اظہار کرتے رہے کہ جن قوتوں نے انہیں ایوان اقتدار سے بے دخل کیا تھا وہ اس کا حساب ضرور لیں گے، میاں صاحب ایک کاروباری شخصیت ہیں سو حساب کتاب میں خاصی مہارت رکھتے ہیں انہیں سمجھایا گیا کہ اپنا حساب اللہ پر چھوڑ دو کہ اس سے بڑا محتسب کوئی نہیں بالآخر میاں صاحب سمجھ گئے کہ ان کا حصول اقتدار بدلا لینے کے لیے نہیں اپنے خیالات بدلنے میں ہے جو ایک اچھی بات ہے ان کا یہ عمل ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت ہوگا اور اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ الیکشن میاں نواز شریف کے آنے کے بعد ہی ہوں گے۔
الیکشن کے نتائج کیا ہوں گے اس سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے، کیونکہ انتخابات کے موقعے پر ہدف پر نہ لگنے والے تیر بھی اٹھا کر تیر انداز کو پیش کر دینا قوم کی عادت بن چکی ہے، شاید ایسے ہی کسی موقعے پر غالب نے کہا تھا کہ
کیوں نہ ٹھیریں ہدفِ ناوکِ بے داد کے ہم
آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہو جاتا ہے
یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ وطن عزیز پر جمہوریت کے نام پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہی برسر اقتدار رہی ہیں مگر عوام ان کی حکومت میں بھی بے سر و ساماں رہے ہیں، مہنگائی کا عفریت عوام کی امنگوں اور جذبات کو نگلتا رہا اور عوام بے روزگاری کی چکی میں پستے رہے کیونکہ حکمران اپنے مفادات اور تحفظات ہی کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی وضع کرتے رہے کہ ان کے اقتدار کا مقصد اور سیاسی نصب العین یہی رہا ہے اور اب بھی یہی کچھ ہوگا، پاکستان کو مملکت خداد بنانا ہے تو خدا کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا، کشکول توڑنا ہوگا، پھیلی ہوئی جھولی کی پیوندکاری کرنا ہوگی، بصورت دیگر امریکا کی تابع داری اور آئی ایم ایف کی دہلیز پر سرنگوں رہنا ہی مقسوم رہے گا۔ سر کو سربلند کرنے کے لیے کسی نیک نام اور عوام دوست جماعت کو ایوان اقتدارکا راستہ دینا ہو گا، اس وقت جماعت اسلامی ہی ایک ایسی جماعت ہے جو نیک نام ہے اور عوام دوستی میں بھی مخلص ہے سو اخلاص کا تقاضا ہے کہ عوام بھی اپنے خلوص کا مظاہرہ کریں، کیا یہ ممکن ہے؟ اس کا جواب ہاں میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ضمیر مرتا نہیں سو جاتا ہے۔