طویل خانہ جنگی سے چھٹکارے کے بعد 21ستمبر 1949ء کو چین کے عظیم راہنما ماؤزے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی۔ یکم اکتوبر چین کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہر سال یکم اکتوبر سے سنہری ہفتہ کا آغاز ہوتا ہے، جسے پوری قوم کی طرف سے زبردست تیاری کے ساتھ خصوصی طور پر منایا جاتا ہے۔ بیجنگ، شن جن، ہاربین، ہانگ جو اور شیامن سمیت وسیع وعریض ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں انتہائی جوش وجذبے کے ساتھ قومی جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین لازوال دوستی کا سلسلہ گزشتہ 74برسوں سے جاری ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دوستی مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ 1951 میں پاکستان اور چین کے مابین سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے چین کو تسلیم کیا اِس سے پاکستان اور چین کے مابین نئے باہمی تعلقات کا آغاز ہوا جو دونوں ملکوں کے رہنماؤ اور عوام کی سطح پر مضبوط ہوتے چلے گئے دُنیا اور خطے میں سیاسی تغیرو تبدل سے بالا تر دونوں ملکوں کی دوستی پروان چڑھتی رہی جو دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہے پاکستان نے تائیوان، تبت ودیگر مسائل پر ہمیشہ چین کے اصولی موقف کی تائید کی۔ چین نے بھی پاکستان کی علاقائی سلامتی، آزادی اور حفاظت کے لیے کھلے دل کے ساتھ پاکستان کی حمایت کی اور مخلصانہ خود غرضی سے پاک مالی معاونت کے ذریعے پاکستان کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے حصول اور استحکام کے لیے پاکستان کی مدد کی۔
اِس سے قبل کہ پاکستان کے چین کے ساتھ حالیہ تعلقات کا جائزہ لیا جائے بہتر ہوگا کہ سفارتی تعلقات کے قیام سے اُن منصوبوں کا ذکر کیا جائے جو چین نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے شروع کیے۔ اِن منصوبوں میں پہلا منصوبہ ہیوی میکینکل کمپلیکس ٹیکسلا کا قیام ہے جس نے پاکستان کی معاشی ترقی میں بے مثال کردار ادا کیا۔ پاکستان میں جتنی ترقی ہوئی یا ہو رہی ہے وہ میکینکل کمپلیکس ٹیکسلا ہی کی مرہون منت ہے۔ قراقرم ہائی وے کا ذکر کیا جائے تو یہ شاہراہ دونوں ممالک کے مابین دوستی کا ایک اہم سنگ میل قرار دی جا سکتی ہے۔ قراقرم ہائی وے جسے دُنیا کا آٹھواں بڑا عجوبہ بھی کہا جاتا ہے نے نہ صرف دونوں ملکوں کی تجارت بڑھانے میں اہم کردار کیا بلکہ گلگت بلتستان کی ترقی میں بھی اِس شاہرہ کا اہم کردار ہے۔ پاکستان کو توانائی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے بھی چین کی کوششوں اور سرمایہ کاری سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ گلگت بلتستان اور کشمیر میں انرجی سیکٹر میں بہت سے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ چین نیو کلیئر پاور سیکٹر میں بھی پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ 330 میگاواٹ کا چشمہ پاور پلانٹ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے جبکہ چشمہ کے مقام پر ہی چین کی مدد سے دو ایسے ہی پاور پلانٹ چشمہ 4 اور 5 پر بھی کام مکمل ہو گیا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ یہ دونوں منصوبے نیشنل پاور گرڈ میں کئی سومیگاواٹ کا اضا فہ کریں گے جس سے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں کافی مدد ملے گی۔ چین اور پاکستان کے مابین تجارت کو بھی توسیع دی جارہی ہے۔ چین پاکستانی مصنوعات کا پانچواں بڑا درآمد کنندہ ہے۔ اِس کے علاوہ چین کی مختلف کمپنیاں تیل وگیس، آئی ٹی انجینئرنگ مائنر سیکٹر اور ہاؤسنگ ومواصلات کے شعبہ میں بھی 300 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکی ہے۔
پاکستان اور چین کے تعلقات ہر نشیب وفراز سے بالا تر مستحکم سے مستحکم تر ہوتے جا رہے ہیں یہ دوستی صرف دونوں ممالک کی حکومتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے سے گہری محبت اور پیار رکھتے ہیں۔ قدرتی آفات میں بھی دونوں ممالک نے دل کھول کر ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ پاکستان اور چین کی یہ دوستی نہ ختم ہونے والی دوستی ہے۔ 5 جولائی 2013 کو چین اور پاکستان نے 46ارب ڈالر کی چین پاکستان اقتصادی راہداری کی منظوری دی تھی۔ اِس منصوبے کے تحت بحیرئہ عرب پر واقع گوادر بندرگاہ کو چین کے شہر کاشغر سے ملانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اقتصادی تعلقات کے علاوہ چین نے ہر بُرے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ 2005 میں چین میں زلزلہ اور 2008 میں پاکستان میں زلزلے کے وقت دونوں ملکوں نے وسائل سے بڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی۔ چین نے 2008 کے زلزلے میں پاکستان کے لیے 6.2 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب کمبل 3380 خیمے ودیگر سامان فراہم کیا گیا تھا جس کی مجموعی مالیت 20.5 ملین ڈالر تھی۔ اسی طرح چین میں مئی 2008 میں زلزلہ آیا تو حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں نے خیموں کمبلوں اور جان بچانے والی ادویات بھیجیں، اسی طرح 2010 کے سیلاب میں نقصانات کے ازالہ کے لیے چین نے پاکستان کو 250 ملین ڈالر کی امدادی۔ یہ کسی بھی ملک کی طرف سے پہلی مرتبہ اتنی بڑی امداد تھی۔
چین نے پاکستان کے ساتھ دفاعی شعبے میں بھی بہت تعاون کیا۔ چین نے نہ صرف پاکستان کو اسلحہ فراہم کیا بلکہ دفاعی طور پر پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کے اندر بھی اسلحہ کی تیاری کے لیے فیکٹریوں کے قیام میں معاونت کی جن میں پاکستان ایرونائیکل کمپلیکس، ہیوی انڈسڑیز ٹیکسلا، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز پاکستان نیوی کے دفاعی منصوبے اور میزائل فیکٹریاں بھی چین کے تعاون سے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان ایرونائیکل کمپلیکس کامرہ میں جے ایف 17تھنڈر فائٹر طیاروں کی تیاری بھی پاک چین دوستی کی ایک زندہ مثال ہے یہ طیارے بر آمد بھی کیے جاسکیں گے۔ قطر اور سری لنکا نے اِ ن طیاروں کی خرید اری میں دلچسپی کا بھی اظہار کیا تھا اس طرح پاکستان کثیر زرمبادلہ بھی کما رہا ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں چین نے بھر پور طریقے سے پاکستان کی اخلاقی، سفارتی اور مالی امداد کی۔ چین نے نہ صرف کشمیر پر پاکستان کے بھر پور موقف کی حمایت کی بلکہ بھارت کے کشمیر پر ظالمانہ قبضہ کی مخالفت اور مذمت کی ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے منصوبے ہیں جو یا تو چین کی مدد سے مکمل ہو چکے ہیں یا زیرتکمیل ہیں۔ اس کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت 46ارب ڈالر کے توانائی اور مواصلاتی منصوبوں کا جال بھی بچھایا جا رہا ہے جو پاک چین دوستی کی زندہ مثال ہے اس میں 32ارب ڈالرز کی بے مثال سرمایہ کاری چاروں صوبوں میں توانائی کے 14منصوبوں کی تعمیر، ہائیڈل، کول ونڈ اور شمسی توانائی سے 10400 میگاواٹ بجلی کی پیداوار 440 کلومیٹر طویل قراقرم ہائی وے کی دو مرحلوں میں تعمیر، کراچی، لاہور موٹروے کے 392 کلو میٹر طویل ملتان، سکھر سیکشن کی تعمیر کراچی تا حویلیاں، پاکستان ریلوے کے 1700 کلومیٹر طویل ٹریک کی توسیع وتعمیرنو گوادر انٹرنیشنل ائر پورٹ، ایسٹ بے، ایکسپریس وے، بریک واٹرز کی تعمیر، گوادر اسپتال، فائبر کیبل وغیرہ شامل ہیں۔
چین اور پاکستان نہ صرف ہمسایہ ملک ہیں بلکہ ان کی مضبوط دوستی کی لمبی تاریخ ہے عالمی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بہت کم ایسی مثالیں ملتی ہیں جو پاکستان اور چین کی دوستی کی طرح ہوں۔ ہمیں پاک چین تعلقات کی 74ویں سالگرہ مناتے ہوئے اِن دوستی کے رشتوں کو اور مضبوط بنانا ہے اور دُنیا پر ثابت کرنا ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عوام کے دلوں میں پائی جانے والی یہ دوستی اور محبت مضبوط تو ہو سکتی ہے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
آج چین سپر پاور بننے کی سمت گامزن ہے۔ مگر کم ہی پاکستانی جانتے ہیں کہ پاکستان ہی پہلا ملک تھا جہاں سے چینی عوام نے دُنیا کو دیکھنا شروع کیا۔ پاکستان ہی وہ پہلا غیر کیمونسٹ ملک ہے جس کی ائر لائن، پی آئی اے کی پہلی بین الااقوامی پرواز نے چین میں لینڈ کیا۔ اس پر چین بھر میں جشن منایا گیا تھا۔ بعدازاں پاکستان ہی پہلا ملک ہے جس نے 1969ء میں چین کو تین برطانوی ساختہ ہوائی جہاز، ٹرائڈینٹ (Hawker Siddeley Trident) فراہم کیے۔ یہ تینوں جہاز پی آئی اے کے زیر استعمال تھے۔
ان میں ایک جہاز چین کے بانی ماؤزے تنگ کو دیا گیا۔ وہ اپنی موت تک اسے استعمال کرتے رہے۔ وہ ماؤ کی بیگم، جیانگ قنگ کے بھی زیر استعمال رہا۔ اس جہاز پر آج بھی ’’کرٹسی بائی پاکستان‘‘ لکھا ہے۔ دوسرا ملٹری کمیشن اور سیکورٹی کونسل کوتفویض ہوا۔ جبکہ تیسرا ہوائی جہاز ماؤ کے جانشین، لن بیاؤ کو دیا گیا۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات کی امپورٹ کی اجازت دی اور ہم ایک طویل عرصے سے چین کی تیار اشیا استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان نے چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت بھی دی۔
چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے اور پاکستانی انہیں حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتے۔ پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا کبھی چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتی تھی۔ آج وہ چین دنیا میں ترقی کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لیے پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں۔ چین آگے نکل گیا جب کہ ہم اپنے ہی مزار کے مجاور بن کر رہ گئے۔ پاکستانیوں کو ان وجوہ کا جائزہ لینا چاہیے جن کے باعث افیونی چینی آج ترقی یافتہ بن چکے ہیں۔