بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے نے جہاں انڈسٹری کا پہیہ جام کردیا ہے وہاں بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکا ہے، ملک کی واحد جماعت؛ جماعت اسلامی ہے جو عدالتوں میں KE کے خلاف مقدمہ کررہی ہے ساتھ ہی اس عوامی ظلم کے خلاف بھرپور تحریک چلارہی ہے مگر نہ تو سابقہ حکومتوں نے کوئی توجہ دی نہ عدلیہ نے نہ عبوری حکومت نے۔ اللہ کرے نئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ صاحب ہی کوئی کرم فرمائیں تو عوام ان کو ساری عمر دعائیں دیتے رہیں گے۔ بات یہ ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی تجدید ملکی مفاد میں نہیں ہے کیوں کہ ان سے بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں ادائیگی عوام پر کسی ظلم کے پہاڑ سے کم نہیں، یہ کینسر زدہ معاہدے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کررہے ہیں ان معاہدوں کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے یا ان پر نظرثانی کی جائے، اور جن حکومتوں نے یہ معاہدے کیے تھے انہوں نے اپنی سات پشتوں کے لیے مال بنالیا اب نہ تو پیپلزپارٹی کو کوئی فکر ہے نہ مسلم لیگ (ن) کو کیوں کہ یہ سارے معاہدے ان کے دور حکومت میں ہوئے، عمران خان کے پاس موقع تھا اگر وہ آئی پی پیز کے معاہدے ختم کردیتے تو آج عوام ان کے لیے قربانی دینے کو تیار ہوتے مگر افسوس آج وہ سیاسی قیدی بنے ہوئے ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بجلی بھی سوائے انکشاف کے کچھ نہیں کرپائی، یہ وہ طاقت ور آئی پی پیز ہیں جن میں ملک کے کئی سیاست دانوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے اگر ایمانداری سے ان کے خلاف تحقیقات ہوں تو سارے چہرے بے نقاب ہوسکتے ہیں اس میں بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے عناصر بھی موجود ہوسکتے ہیں۔
کمیٹی نے انکشاف کیا کہ رواں مالی سال 2023-24ء میں بجلی کے صارفین کیپسٹی سرچارج کی مد میں 1300 ارب روپے بجلی خریدے بغیر آئی پی پیز کو ادا کریں گے۔ گزشتہ 20 سال میں حکومت آئی پی پیز کو کیپسٹی سرچارج کی مد میں 8000 ارب روپے ادا کرچکی ہے جبکہ گزشتہ سال 2000 ارب روپے ادا کیے گئے جو ہماری فوجی کے بجٹ 1800 ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں۔ آج کیپسٹی سرچارج کا یہ زہر بڑھ کر صارفین کے بلوں کا آدھے سے زیادہ تک پہنچ چکا ہے۔ 2021-22ء میں پاور سیکٹر میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور چوری بڑھ کر 440 ارب روپے (17فی صد) تک پہنچ چکی ہے جس میں پشاور الیکٹریسٹی کے صرف ایک سال میں 154 ارب روپے (37فی صد) کے نقصانات شامل ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے جو پورے سسٹم کو تباہ کررہا ہے۔ اسمارٹ گرڈ اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم ترسیل کے نقصانات کو ایک سال میں 50 فی صد کم کرسکتے ہیں لیکن ہم آئی ایم ایف کے مطالبے پر ان نقصانات کو عام صارفین سے بجلی کے قیمتوں میں اضافہ کرکے وصول کررہے ہیں جس سے بجلی کے نرخ ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں، میں چیف جسٹس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آئی پی پیز معاہدوں کی انکوائری کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے اور ان کالی بھیڑوں کا جو آئی پی پیز میں کک بیکس اور غیر حقیقی مراعات حاصل کررہی ہیں بے نقاب کرکے ان کی حرام کی دولت چھین کر قومی خزانے میں جمع کردی جائے اور ایسے عناصر کو یا تو سزائے موت دی جائے یا ساری عمر جیل میں قید میں رکھا جائے۔
ساری چوری، مفت بجلی اور واپڈا کے افسران کو مفت فراہم ہوتی ہے، سرکاری افسران کی مفت بجلی، فرنس آئل کی قیمتوں کا اضافہ یہ سب خامیاں اور کوتاہیاں غریب صارفین سے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کی جارہی ہے جس میں ٹیکسوں کی بھرمار ہے، موجودہ حکومت نے عوامی ردعمل پر کہا کہ آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر ہم بجلی کے بلوں میں ریلیف نہیں دے سکتے، جب ریلیف دے نہیں سکتے تو تم کو اضافہ کرنے کا حق کس قانون نے دیا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ زیادہ تر آئی پی پیز کی پلانٹ مشنری اور سرمایہ کاری 60 ارب ہے جبکہ یہ 400 ارب سے زیادہ منافع لے چکے ہیں، اب یہ پلانٹ مفت ہوگئے اور ان سے بجلی کی پیداواری لاگت نہایت کم ہوگئی ہے، کوئلے سے بجلی گھروں کو دوبارہ کیوں نہیں چلایا جاسکتا، مقامی کوئلے سے سستی بجلی پیدا ہوسکتی ہے اس کے علاوہ کچرے سے بجلی بنائی جاسکتی ہے، سولر سے بجلی بنانے کے لیے حکومت لوگوں کو بلاسود قرضے دے ہر علاقے میں سولر لگائیں اس کے علاوہ اور بھی کئی طریقے ہیں۔
قارئین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار کی استعداد 41 ہزار میگاواٹ ہے، ہمارے ملک میں بجلی کئی طریقوں سے حاصل ہوتی ہے، فرنس آئل، ایل این جی، ایران سے درآمد کی جاتی ہے۔ مقامی گیس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے، کوئلے سے بجلی بنائی جاتی ہے، سب سے سستی بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے جس کی فی یونٹ قیمت 1.16 ہے ہمارے حکمران اگر قوم سے مخلص ہوتے تو ہم آج نیوکلیئر سے بجلی پیدا کرتے ملک بھی خوشحال ہوتا اور عوام بھی خوشحال ہوتی۔ نیپرا کے مطابق تمام ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی 8.96 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو فراہم کی گئی۔ تاہم بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی چوری، لائن لاسز، سرکاری ملازمین کو فراہم کی جانے والی مفت بجلی اور پاور پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں کا بوجھ عوام پر ڈال کر بجلی کے نرخ بڑھا کر 30 سے 50 روپے فی یونٹ کردیے گئے ہیں، سولر انرجی اس وقت جدید دنیا میں استعمال ہونے والے سب سے کم مہنگے توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے لیکن ہم تقریباً 600 میگاواٹ بجلی سولر سے حاصل کررہے ہیں جو مجموعی پیداوار کا 1.6فی صد ہے۔ پاکستان جغرافیائی طور پر اس خطے میں واقع ہے جہاں سال بھر سورج کی روشنی موجود رہتی ہے مگر افسوس کے ہم نے اب تک اللہ کی اس نعمت سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا، دراصل مسئلہ صرف ایک ہے وہ ہے کرپشن جس کو دیکھو راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے جس کو جہاں موقع مل رہا ہے وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ 76سال سے قوم کو ایماندار قیادت کا انتظار ہے افسوس ملک میں واحد جماعت، جماعت سلامی ہے جو کرپشن سے پاک ہے اور سچے جذبے کے ساتھ قوم کی خدمت کرتی ہے مگر یہ بے شعور قوم ہر الیکشن میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو لے کر آجاتی ہے، آنے والے الیکشن میں اگر ہوش کے ناخن نہیں لیے تو اس سے بدتر حالات سے دوچار ہونا پڑے گا، اے ابن آدم فیصلہ تم کو کرنا ہے۔