انوار الحق کاکڑ نگران وزیر اعظم نامزد ہوئے تو ہم نے کہا تھا کہ کاکڑ صاحب اپنے پیش رو حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ ہی کریں گے، کہ ان کی نامزدگی اسی لیے کی گئی ہے، حالات اور واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ کاکڑ صاحب طے شدہ معاملات کا دائرہ کبھی نہیں توڑیں گے، ملک و قوم کی نگرانی کے بجائے سابق حکمرانوں کے مفاد ات کی نگرانی کریں گے اور قوم کے کڑاکے نکالیں گے۔ تیرہ جماعتی حکومت نے قوم کو تیرہ تین کیا، اور اب سیاسی تین پانچ کر کے اس کا الزام ایک دوسرے پر لگا رہی ہے۔ انتخابات کب ہوں گے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر یہ بات یقینی ہے کہ آمدہ الیکشن متنازع بنائے جارہے ہیں، اس معاملے میں پیپلز پارٹی کچھ زیادہ ہی متحرک ہے، شاید کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ ہونے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے سندھ بھی نکل جائے گا، سوال یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں کے توتے کون اڑا رہا ہے۔
کاکڑ صاحب کو مشورہ دیا گیا تھا کہ انہیں قوم کا ہیرو بننے کا موقع ملا ہے اگر اس موقع سے استفادہ کریں تو تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروفوں سے لکھا جائے، مگر المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز کے عزیزانِ مصر حال میں مست رہنے کے خوگر ہیں، انہیں مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی نظر میں لمحہ ِ موجود ہی سب کچھ ہے، اور لمحہ موجود میں جینے والے ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے، ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے واپڈا کے ملازمین کو مفت بجلی دینے پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا، مگر نگران وزیر اعظم نے پابندی لگانے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا ہے کہ مفت بجلی پر پابندی لگائی گئی تو واپڈا ملازمین ہڑتال کر دیں گے اور ملک میں پھیلنے والی بد امنی کو روکنا مشکل ہو جائے گا، ہمیں یقین ہے کہ مشورہ دینے والے مفت پٹرول اور مفت بجلی سے مستفید ہونے والے افسران ہی ہوں گے، کیونکہ واپڈا کے ملازمین پر مفت بجلی کی پابندی لگائی گئی تو اس کا ردِ عمل انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا، حالانکہ ردِ عمل کو روکنا مشکل نہیں قوم کو اس کا تجربہ ہے۔ مصطفی کھر پنجاب کے گورنر تھے یا وزیر اعلیٰ پنجاب ان کے دور میں پولیس نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کا اعلان کر دیا اور کھر صاحب نے حکم جاری کیا کہ جو پولیس اہلکار ہڑتال کرے گا اسے معطل کر دیا جائے گا اور پولیس میں بھرتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ بے روزگاری ایک ایسا عفریت ہے کہ اس کا خیال بھی آدمی کے ہوش اُڑا دیتا ہے اور یوں ہڑتال ناکام ہو گئی۔
واپڈا کے ملازمین کو لگ بھگ 18ارب روپے کی مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے اور حکمران طبقے کو 18ارب ڈالر کی مراعات اور سہولتیں دی جاتی ہیں، اور مزید مراعات کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے در پر جھولی پھیلا کر اس کے در پر سرنگوں کھڑے ہیں، اگر چیف جسٹس پاکستان یا آرمی چیف مفت خوری پر پابندی لگا دیں تو پاکستان ایک خوشحال اور باوقار ملک بن جائے گا۔ قرض لینے کے بجائے قرض دینے والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ مگر نام نہاد جمہوریت میں یہ ممکن ہی نہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تو چلے گئے، مگر سیاسی سونامی چھوڑ گئے، مہنگائی کے سونامی نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں آئے دن کے اضافے نے ان کا ہاتھ اتنا تنگ کر دیا ہے کہ منہ تک بھی بمشکل پہنچتا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں جو مفت بجلی اور مفت پٹرول پر پابندی لگائے، کہتے ہیں جو ادارے اس ظلم کو روک سکتے ہیں وہ خود بھی اس میں شامل ہیں، عوام کے خون پر پروان چڑھنے والوں کا ایک ہی علاج ہے، اور وہ یہ کہ ان پر سیاسی پابندی لگادی جائے، جب تک ان پر ایوانِ اقتدار کے دروازے بند نہیں کیے جاتے عوام بدحال رہیں گے، کیونکہ ان کی بدحالی کا سبب سیاسی سرمایہ کاری ہے۔
یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ ان مفت خوروں میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو مفت خوری سے انکار کی جرأت کر سکتا ہو۔ ہم بارہا انہی کالموں میں گزارش کر چکے ہیں کہ جب سیاست تجارت بن جائے تو اسے قومیا لیا جانا چاہیے، کیونکہ قومی حکومت کی تشکیل کے بغیر مفت خوری پر پابندی نہیں لگ سکتی۔ سبھی بے لباس ہوں تو دوسروں کو بے لباسی کا طعنہ کون دے سکتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان عزتِ مآب فائز عیسیٰ نے اپنی تعیناتی سے قبل قوم سے جو وعدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد کا آغاز ہو چکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ واجب الاحترام آرمی چیف کب اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے۔