سوچ بدلیں سب کچھ بدل جائے گا

996

آج میں اپنے جانب سے کچھ نہیں لکھوں گا کیونکہ محمد یوسف خٹک نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ میں ایسا کچھ پوسٹ کیا ہے کہ جس کے بعد کچھ لکھنے کی گنجائش ہی نہیں رہی ہے۔ اچھی بات کسی نے بھی لکھی یا بیان کی ہو، اس کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ اچھائی کو فروغ حاصل ہو۔ مجھے امید ہے کہ قارئین اس سے بہت کچھ حاصل کریں گے اور بطخ بنے رہنے کے بجائے ’’سائیں‘‘ کی طرح عقاب بننے کی کوشش کریں گے۔

’’میں ٹیکسی لینے اسٹینڈ کی طرف چلا۔ جب میرے پاس ایک ٹیکسی رکی تو مجھے جو چیز انوکھی لگی وہ گاڑی کی چمک دمک تھی۔ اس کی پالش دور سے جگمگا رہی تھی۔ ٹیکسی سے ایک اسمارٹ ڈرائیور تیزی سے نکلا۔ اس نے سفید شرٹ اور سیاہ پتلون پہنی ہوئی تھی جو تازہ تازہ استری شدہ لگ رہی تھی۔ اس نے صفائی سے سیاہ ٹائی بھی باندھی ہوئی تھی۔ وہ ٹیکسی کی دوسری طرف آیا اور میرے لیے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔ اس نے ایک خوبصورت کارڈ میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا، سر جب تک میں آپ کا سامان ڈگی میں رکھوں، آپ میرا مشن اسٹیٹمنٹ پڑھ لیں۔ میں نے آنکھیں موچ لیں۔ یہ کیا ہے، میرا نام سائیں ہے، آپ کا ڈرائیور۔ میرا مشن ہے کہ مسافر کو سب سے مختصر، محفوظ اور سستے راستے سے ان کی منزل تک پہنچاؤں اور ان کو مناسب ماحول فراہم کروں۔ میں نے آس پاس دیکھا تو ٹیکسی کا اندر بھی اتنا ہی صاف تھا جتنا کہ وہ باہر سے جگمگا رہی تھی۔ اس دوران وہ اسٹیئرنگ ویل پر بیٹھ چکا تھا۔ سر آپ کافی یا چائے پینا چاہیں گے۔ آپ کے ساتھ ہی دو تھرماس پڑے ہوئے ہیں جن میں چائے اور کافی موجود ہے۔ میں نے مذاق میں کہا کہ نہیں میں تو کوئی کولڈ ڈرنک پیوں گا۔ وہ بولا ’سر کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے پاس آگے کولر پڑا ہوا ہے۔ اس میں کوک، لسی، پانی اور اورنج جوس ہے۔ آپ کیا لینا چاہیں گے؟‘ میں نے لسی کا مطالبہ کیا اور اس نے آگے سے ڈبا پکڑا دیا۔ میں نے ابھی اسے منہ بھی نہیں لگایا تھا کہ اس نے کہا، سر اگر آپ کچھ پڑھنا چاہیں تو میرے پاس اردو اور انگریزی کے اخبار موجود ہیں۔ اگلے سگنل پر گاڑی رکی تو سائیں نے ایک اور کارڈ مجھے پکڑا دیا کہ اس میں وہ تمام ایف ایم اسٹیشن ہیں جو میری گاڑی کے ریڈیو پر لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں وہ تمام البم بھی ہیں جن کی سی ڈی میرے پاس ہے۔ اگر آپ کو موسیقی سے شوق ہے تو میں لگا سکتا ہوں۔ اور جیسے یہ سب کچھ کافی نہیں تھا، اس نے کہا کہ سر میں نے ائر کنڈیشنر لگا دیا ہے۔ آپ بتائیے گا کہ ٹمپریچر زیادہ یا کم ہو تو آپ کی مرضی کے مطابق کردوں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے راستے کے بارے میں بتا دیا کہ اس وقت کس را ستے پر سے وہ گزرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ اس وقت وہاں رش نہیں ہوتا۔ پھر بڑی پتے کی بات پوچھی، سر اگر آپ چاہیں تو راستے سے گزرتے ہوئے میں آپ کو اس علاقے کے بارے میں بھی بتا سکتا ہوں۔ اور اگر آپ چاہیں تو آپ اپنی سوچوں میں گم رہ سکتے ہیں۔ وہ شیشے میں دیکھ کر مسکرایا۔

میں نے پوچھا، سائیں، کیا تم ہمیشہ سے ایسے ہی ٹیکسی چلاتے رہے ہو، اس کے چہرے پر پھر سے مسکراہٹ آئی۔ نہیں سر، یہ کچھ دو سال سے میں نے ایسا شروع کیا ہے۔ اس سے پانچ سال قبل میں بھی اسی طرح کڑھتا تھا جیسے کہ دوسرے ٹیکسی والے کڑھتے ہیں۔ میں بھی اپنا سارا وقت شکایتیں کرتے گزارا کرتا تھا۔ پھر میں نے ایک دن کسی سے سنا کہ سوچ کی طاقت کیا ہوتی ہے، یہ سوچ کی طاقت ہوتی ہے کہ آپ بطخ بننا پسند کریں یا عقاب! اگر آپ گھر سے مسائل کا رونا روتے نکلیں گے تو آپ کا سارا دن برا ہی گزرے گا۔ بطخ کی طرح ہر وقت کی ٹیں ٹیں سے کوئی فائدہ نہیں! عقاب کی طرح بلندی پر اڑو تو سارے جہاں سے مختلف لگو گے۔ یہ بات میرے دماغ کو تیر کی طرح لگی اور اس نے میری زندگی بدل دی۔ میں نے سوچا یہ تو میری زندگی ہے۔ میں ہر وقت شکایتوں کا انبار لیے دوسروں کو اس کا ذمے ٹھیرا کر بطخ کی طرح سے ٹیں ٹیں کرتا رہتا تھا۔ بس میں نے عقاب بننے کا فیصلہ کیا تاکہ میں اپنی دنیا خود پیدا کروں سو میں نے ارد گرد دیکھا تو تمام ٹیکسیاں گندی دیکھیں۔ ان کے ڈرائیور گندے کپڑوں میں ملبوس ہوتے تھے۔ ہر وقت شکایتیں کرتے رہتے تھے اور مسافروں کے ساتھ جھگڑتے رہتے تھے۔ ان کے مسافر بھی ان سے بے زار ہوتے تھے۔ کوئی بھی خوش نہیں ہوتا تھا۔ بس میں نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے میں نے چند تبدیلیاں کیں۔ گاڑی صاف رکھنی شروع کی اور اپنے لباس پر توجہ دی۔ جب گاہکوں کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی تو میں نے مزید بہتری کی۔ اور اب بھی بہتری کی تلاش ہے۔ میں نے اپنی دلچسپی کے لیے پوچھا کہ کیا اس سے تمہاری آمدنی پر کوئی فرق پڑا، سر بہت بڑا فرق پڑا۔ پہلے سال تو میری انکم ڈبل ہوگئی اور اس سال لگتا ہے چار گنا بڑھ جائے گی، ان شاء اللہ اب میرے گاہک مجھے فون پر بک کرتے ہیں یا ایس ایم ایس کرکے وقت طے کرلیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے ایک اور ٹیکسی ارینج کرنی پڑے گی اور اپنے جیسے پوزیٹو سوچ کے کسی بندے کو اس پر لگانا پڑے گا۔ یہ سائیں تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اسے بطخ نہیں بننا بلکہ عقاب بننا ہے۔ کیا خیال ہے؟ اس ہفتے سے عقاب کا ہفتہ نہ شروع کیا جائے؟ سائیں نے تو مجھے ایک نیا فلسفہ دیا ہے۔ بڑا فلسفہ۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ کوئی پانی میں گرنے سے نہیں مرتا۔ ہاتھ پائوں نہ مارنے سے مرتا ہے‘‘۔