سکرنڈ کے پہلو میں دس بارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر کچے کے علاقہ ماڑی جلبانی میں خون آشام آپریشن میں 4 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ گائوں کے مکین امام بخش عرف اکن، مہیار، سجاول اور نظام الدین جلبانی برادری کے طور پر شناخت ہوئے۔ ایس پی نواب شاہ کا کہنا یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے والوں نے سی ٹی ڈی کی اطلاع پر یہ کارروائی کی جس میں 4 اہلکار زخمی ہوئے اور رینجرز اور پولیس کی جوابی کارروائی سے گائوں کے 4 افراد بھی ہلاک ہوئے۔ نگران وزیرداخلہ حارث نواز کا کہنا یہ تھا کہ یہاں خودکش بمبار کی موجودگی کی اطلاع پر یہ کارروائی کی گئی۔ یہ فورسز کے جوان مبینہ طور پر حاجی رجب جلبانی کو گرفتار کرنے آئے تھے جو 70 سال کے ہیں اور وہ گھر پر موجود نہ تھے۔ گائوں والوں نے فورسز کے جوانوں کی گائوں میں داخلہ پر مزاحمت کی۔ رجب جلبانی کا تعلق سندھ یونائیٹڈ پارٹی سے ہے۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما سید زین شاہ نے کہا کہ الیکشن سے قبل پی پی پی نے پولیس کے ذریعے انتقامی کارروائی شروع کر دی ہے اور ماڑی جلبانی میں ایس یو پی کے ووٹروں کو نشانہ بنا کر براہ راست فائرنگ کی۔ پی پی پی پولیس کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گمراہ کر رہی ہے۔ ہم اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں یہ نگران صوبائی حکومت کا تحفہ ہے جو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ واقعہ کی ایف آئی آر ایس پی نواب شاہ حیدر رضا کے خلاف داخل کی جائے۔
رینجرز کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ رینجرز اور پولیس کو دیکھ کر شرپسندوں نے حملہ کیا ہم نے جوابی کارروائی کی ہمارے 4 جوان زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں دو بھائی اکن اور نظام الدین ہیں جب کہ مہیار جلبانی اور سجاول جلبانی چچازاد بھائی ہیں جن کا پوسٹ مارٹم بھی ان کے ورثاء نے نہیں کرایا۔ یاد رہے کہ اس گائوں ماڑی جلبانی میں رینجرز اور پولیس کارروائی سے پہلے رینجرز نے وٹرنری یونیورسٹی سکرنڈ میں پڑھنے والے طالب علم لیاقت ولد شبیر جلبانی کو گرفتار کیا جس کو لے کر وہ گائوں ماڑی جلبانی پہنچے تھے۔ لیاقت جلبانی کا کہنا ہے کہ میں وٹنری یونیورسٹی سکرنڈ کا طالب علم ہوں مجھے روڈ سے گرفتا رکیا گیا مجھ پر سخت تشدد کیا اور میرے منہ پر کالا کپڑا پہنا کر کہا کہ مجھے اپنا گھر دکھائو اور گاڑی میں بٹھا کر گائوں آئے اس دوران مجھے گائوں والوں نے چھڑانے کی کوشش کی تو اندھا دھند رینجرز اور پولیس نے فائرنگ کر دی اور اس سے 4 افراد ہلاک 4 زخمی ہوئے۔
یہ ضلع بے نظیر آباد کا دوسرا بڑا واقعہ ہے اس سے قبل 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک میں پھنوں خان چانڈیو گائوں کے قریب رینجرز اور کارکنوں کے درمیان تصادم نے کئی افراد کی جان لے لی تھی اور اب ماڑی جلبانی کے اس واقعہ نے یاد تازہ کر دی ہے۔ مرنے والے مہیار جلبانی کے 5 بچے اور نظام جلبانی کے 4 بچے ہیں اور تمام مرنے والوں کی عمر 20 سے 30 سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ مرنے والوں کے ورثا نے لاشوں کے ہمراہ قومی شاہراہ جو کراچی سے پشاور کو ملاتی ہے اس پر دھرنا دیا۔ جس سے ہزاروں گاڑیاں جمع ہو گئیں اور مسافروں کو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ان کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قوم پرست ریاض چانڈیو نے اس کو ٹنڈو بہاول سے ملتا جلتا واقعہ قرار دیا ہے۔ کچھ حلقے اس علاقے کو قانون نافذ کرنے والوں کے لیے نوگوایریا قرار دیتے ہیں اور اس آپریشن کے دور رس اثرات علاقہ کی سیاست، صوبہ کی سیاست پر پڑنے کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ یہ علاقہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کا گڑھ ہے اور پی پی پی کے قلب میں کانٹے کی طرح ہے۔ قوم پرست تنظیموں نے اس واقعہ کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ اور اب ماڑی جلبانی کا واقعہ فاطمہ سانحہ کو پیچھے دھکیلنے اور اس کے دبائو کو کم کرنے کے طور پر کام میں تو نہیں لیا جائے گا۔ بڑی خبر چھوٹی خبر نگل لیتی ہے۔ اگر یہ سیاسی ہے تو اس پر لعنت ہے جو خون کی بھینٹ لے۔
ماڑی جلبانی آپریشن اور دھرنے کا ڈراپ سین یوں ہوا کہ کمشنر حیدرآباد، ڈی آئی جی پولیس بے نظیر آباد ڈی آئی جی اسپیشل برانچ بے نظیر پر مشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم محکمہ داخلہ سندھ نے تشکیل دے دی ہے جو 4 دنوں میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ حکومت سندھ کو پیش کرے گی اور اس واقعہ کی ایف آئی آر ماڑی تھانہ میں پولیس اور رینجرز اور سادہ لباس میں ملبوس نامعلوم افراد کے خلاف دفعہ 302 کے تحت درج ہو گئی۔ انتظامیہ اور ورثاء متوفین کے درمیان پل کا کردار سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سید زین شاہ نے ادا کیا اور فوت شدگان کو ان کے آبائی گائوں ماڑی جلبانی کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ شاہراہوں پر بند ٹریفک کھل گیا۔ تحقیقات میں اہم انکشاف متوقع ہے افواہیں زوروں پر ہیں سیاست چمکائی اور بجھائی جارہی ہے۔