جھوٹے وعدے جھوٹے لوگ، سچے وعدے سچے لوگ

960

دوسرا حصہ

2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے تبدیلی، کرپشن ختم کرنے، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے، کشکول توڑنے، بھیک نہ مانگنے جیسے انقلابی نعروں اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے بہت ہی پرکشش نعروں، 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریوں کے وعدوں اور گرین پاسپورٹ کی عزت و وقار اور پاکستان میں غیر ملکیوں کی نوکری کی تلاش کے حوالے سے آمد جیسی خوش خبریوں کا مژدہ، وعدوں، انتخابی جلسے اور جلوسوں میں سحر انگیز باتوں اور دعوؤں کی گونج میں مسند اقتدار تک رسائی حاصل کی، عمران خان ایک ایک کر کے اپنے ہی وعدوں سے بے وفائی کرتے رہے، اس کی سب سے بڑی مثال کشکول نہ توڑنا اور آئی ایم ایف سے کے پاس نہ جانے کے اپنے ہی اعلانات کے برعکس فیصلے، ان کا اپنی کہی ہوئی باتوں سے واضح انحراف تھا اور یہ ممکن بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے کیے ہوئے وعدے وفا کر جاتے، اس کی سب سے بڑی وجہ مختلف الخیال اور مختلف نظریات کے حامی افراد کو اپنا مقربین بنانا اور عمومی طور سے ان تمام سیاستدانوں کے لیے اپنی پارٹی کے دروازے کھولنا تھا جن کی بظاہر منزل تبدیلی، لیکن مقصد صرف انتخاب جیتنا تھا، روزانہ کے اخبارات اور ٹی وی چینل پی ٹی آئی کی مخالف پارٹیوں کی وکٹیں اڑانے کی خبریں دے رہے تھے اور عمران خان ان لوگوں کے گلے میں پارٹی پرچم کے دوپٹے ڈال رہے تھے، اخبارات اور چینل انہی تصاویر اور خبروں کی زینت بنے ہوئے تھے، وقت بہت تیزی سے گزر گیا، پی ٹی آئی حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور میں عوام کو نہ 50 لاکھ گھروں میں سے کوئی گھر اور نہ ایک کروڑ نوکریاں میں سے نوکریاں مل سکیں یا ان کیے گئے وعدوں کی طرف کی طرف کوئی بڑھتا ہوا واضح قدم نظر آیا، اقتدار سے معزولی کے بعد جیسے ہی پی ٹی آئی پر کٹھن وقت آیا تو یہ انتخاب جیتنے کے لیے اور اقتدار کے مسند پر جھولنے کے لیے پی ٹی آئی میں وارد ہونے والے پنچھی اپنے قائد جناب عمران خان اور پارٹی سے بے وفائی کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے، انہیں تنہا چھوڑتے ہوئے اور پارٹی ورکرز کو امتحان میں ڈالتے ہوئے نئے اور محفوظ گھونسلوں کی طرف سفر شروع کر دیا اور آج ان میں سے کئی بظاہر پی ٹی آئی اور عمران خان کے مد مقابل ہیں۔

پی ٹی آئی کی سیاسی کامیابیوں میں ایک کامیابی اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ سابقین کی پی ٹی آئی میں شمولیت تھی، ایک زمانہ میں خود عمران خان، قاضی حسین احمد مرحوم کی خرابی صحت کے سبب ان کی جماعت کی امارت سے معذرت کے بعد ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے کوشاں رہے لیکن قاضی صاحب کے جواب نے عمران خان کی قاضی صاحب سے وابستہ امیدوں کو مایوسی میں بدل دیا، ایک تعداد جو نظریاتی طور پر ہمیشہ سے جماعت اسلامی کے ساتھ رہی اس نے بھی جماعت اسلامی کو نظر انداز کر کے نہ صرف پی ٹی آئی کو ووٹ دیا بلکہ وہ عمران خان کے زبردست پشتی بان بن گئے اور عمران خان کے سیاسی دفاع میں اور ان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا، یہ دراصل جماعت اسلامی یا جمعیت کی ناکامی نہیں تھی بلکہ مادہ پرستی اور بظاہر دینداری لیکن اصل میں آزاد خیالی اور اپنے خود ساختہ اسلام کے مفہوم کے نتیجے میں اس سب کا ہونا کسی اچھنبے اور حیرانی کی بات نہیں تھی، حیرانی تو 70 کی دہائی میں بھی نہیں تھی کہ جب بھٹو جیسے ذہین اور فطین لیڈر اور عمران خان سے کہیں زیادہ سحر انگیز شخصیت کے حامل قائد ذوالفقار علی بھٹو جماعت اسلامی کے افراد کو اپنی طرف مائل نہیں کر سکے تھے، اس کی بظاہر وجہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی میں نظریاتی بعد تھا، جماعت اسلامی جو پیروی کے لیے نبی کریمؐ کی ذات مبارک ہی کو قابل تقلید قرار دیتی رہی، قرآن و سنت کی بات کرتی رہی اور شخصیت پرستی کے زہر سے اس نے اپنے چاہنے اور جاننے اور ماننے والوں کے ذہنوں کو محفوظ رکھا، وہ آزاد خیالی اور مغربی یلغار کے مقابلے میں معاشرے میں وہ کشمکش نہیں پیدا کر سکی جو اس نے بھٹو کے سوشلزم کے مقابلے میں معاشرے میں ایک نظریاتی کشمکش برپا کی تھی۔

عمران خان نے جہاں ایک طرف آزاد خیال، مغربی افکار کی دلدادہ ایلیٹ کلاس کو جدو جہد کے لیے سیاسی میدان میں لا کر کھڑا کیا اسی کے متوازی انہوں نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا، احتساب اور کرپشن کے خلاف قاضی حسین احمد کے نعرہ کو ہائی جیک کیا، اس سراب سے متاثر، اپنی تحریک اپنے قائد اور اپنے لٹریچر سے ناتا توڑنے والے، قرآن اور حدیث کی روشنی میں حق اور باطل کا فرق نہ کر سکے، قال اللہ اور قال رسول کا دم بھرنے والے پی ٹی آئی کے مخلوط جلسوں اور ناچ گانوں، ڈانس اور آزاد خیالی کے کلچر سے آشنا ہوئے یا ان شرعی احکامات کو اس طرح نظر انداز کیا کہ ان ہی کے ہو کر رہ گئے اور عمران خان کی شخصیت کے سحر میں اس بری طرح سے گرفتار ہوئے کہ پھر اپنے شاندار ماضی کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔

جنوری، 2024 میں انتخابات کی باز گشت ہے اور اس بازگشت میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے نعروں اور وعدوں اور منشور کے تحت آنے والے انتخابات کی جانب دیکھ رہی ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن 2018 میں جہاں ان گنت نہ سمیٹنے والی کامیابیاں حاصل کیں وہیں اس کی ایک کامیابی یہ ہے کہ اس نے بہت خوبصورتی سے اپنے اقتدار سے معزولی کا ایشو کبھی سائفر اور کبھی حساس اداروں کے حوالے سے طوفان کی طرح اٹھایا اور کامیابی سے اپنے ہی اداروں کے خلاف غم و غصہ کی ایک عوامی فضا پیدا کی، چینلز اور سوشل میڈیا کی مدد سے اپنے بیانیہ کا اتنا زور دار پرچار کیا اور کرایا کہ اس کی دھول میں کیے گئے الیکشن 2018 کے عوامی فلاح و بہبود کے دو بڑے وعدے 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں اور ملک کی معاشی ترقی کے حوالے سے بہت ہی اہم وعدے کشکول توڑنا، آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینا اس میں دب چکے ہیں، رہی سہی کثر پی ڈی ایم کی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر کے پورے ملک کو مہنگائی کے طوفان میں جھونک دیا اور عام آدمی کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے، ایسے میں اس وقت تنہا جماعت اسلامی ہر محاذ پر عوام کا مقدمہ لڑ رہی ہے، مہنگائی اور ظلم اور جبر کے خلاف پاکستان کے شہروں اور گلی کوچوں میں عوام کے حقوق کی آواز بلند کر رہی ہے، جناب سراج الحق بہت جرأت مندی اور انتھک محنت سے پاکستان کے طول و عرض اور کوچے کوچے میں پہنچ رہے ہیں، پی ٹی آئی کی ساری مہم سوشل میڈیا پر ہی ہے اور ان کے ورکرز کے ’’اب نہیں نکلو گے تو کب نکلو گے‘‘ جیسے نعرے اب سوشل میڈیا پر سلائیڈ کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ 2018 میں سب سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں جیتنے والی پی ٹی آئی اس وقت پورے پاکستان میں کہیں بھی کوئی موثر احتجاج کرنے سے قاصر ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے منشور کا اعلان کئی ماہ پہلے کر دیا ہے، ابھی تک جماعت اسلامی پاکستان میں اقتدار کی مسند تک نہیں پہنچ سکی ہے، لیکن جہاں جہاں اور جب بھی کرپشن کے کیسز کی بات آتی ہے(جو پاکستان کا اس وقت ایک بہت اہم مسئلہ ہے) تو الحمدللہ کہیں بھی اس کے کسی منتخب نمائندے کا نام اس میں شامل نہیں،

اگر دیکھا جائے تو آج کے گئے گزرے معاشرے میں یہ بہت بڑی بات ہے، عبدالستار افغانی مرحوم کی اپنے دو کمرے کے فلیٹ میں ان کی کراچی کی میئر شپ کے زمانے اور بعد کی زندگی ہو یا نعمت اللہ خان مرحوم کا کراچی میں اپنے پورے میئر شپ دورانیہ کی تنخواہ کا زلزلہ فنڈ میں دے دینا، بلدیہ کراچی میں اپنے وعدوں کو نبھانے کے لیے اس وقت کراچی کے گلی کوچوں میں جماعت اسلامی کے بلدیاتی عہدہ دار اور رضاکار اپنے وعدے نبھانے کے لیے برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت سے نبرد آزما رہے ہیں، پورے ملک میں الخدمت کے بڑے اور چھوٹے اسپتال ہیں جہاں لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں، ہزاروں یٰتامی اپنے گھروں اور الخدمت کے پورے ملک میں آغوش ہومز میں کفالت اور تعلیم حاصل کر رہے ہیں، صاف پانی کی شہروں اور گوٹھوں میں فراہمی ہو یا تھرپارکر میں جانور کا اسپتال یا جیل خانوں میں قیدیوں کو انگریزی کمپیوٹر کی تعلیم کا بندوبست، قدرتی آفات میں الخدمت کے کارکنوں کی خدمات، سیلاب شدگان کے لیے نئے گھروں کی تعمیر، ان تمام خدمات کی پاکستان میں ہر طبقہ فکر نے ستائش کی ہے اور عالمی طور سے ان خدمات کو سراہا گیا ہے، اب تو ’’بنو قابل‘‘ آئی ٹی کا ایک بہت بڑا پروگرام لانچ کر دیا گیا جس سے ہزاروں طلبہ و طالبات سے مستفید ہو رہے ہیں، اس پروگرام کے آئی ٹی کے مفت کورسز کے نتیجے میں ان شا اللہ انہیں آن لائن نوکریوں کے ملنے کے مواقع حاصل ہوں گے، اس کے علاوہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ظلم زیادتی اور مہنگائی ہے، جماعت اسلامی ان تمام محاذوں پر برسرپیکار ہے، پاکستان کے طول و عرض میں مسائل سے گھرے عوام میں نعرہ ’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘ مقبول ہو رہا ہے، آنے والا دور ان شا اللہ ایک کلین اور گرین اور خوشحال پاکستان کا دور ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک خواب ہے اور اس خواب کی تعبیر آزمائے ہوئے ناکام لوگ نہیں دے سکتے بلکہ وہ لوگ ہی دے سکتے ہیں جن کا حال اہل پاکستان کی زبردست خدمات کا شاہد اور ماضی ہر طرح کی آلودگی اور کرپشن سے پاک ہو۔