آگاہی ایک دولت ہے

893

ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ہوا ’’شیوانا‘‘ (قبل از اسلام ایران کا ایک مفکر) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’’میری ماں نے فیصلہ کیا ہے کہ معبد کے کاہن کے کہنے پر عظیم بت کے قدموں میں میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کردے آپ مہربانی کرکے اس کی جان بچالیں‘‘۔ شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ عورت نے بچی کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑے ہوئے ہیں اور چھری ہاتھ میں لیے آنکھ بند کیے کچھ پڑھ رہی ہے۔ بہت سے لوگ اس عورت کے گرد جمع ہیں اور بت خانے کا کاہن بڑے فخر سے اس بت کے قریب ایک بڑے پتھر پر بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ شیوانا جب اس عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبت ہے اور وہ بار بار اسے گلے لگا کر والہانہ انداز میں چومے جا رہی ہے مگر اس کے باوجود بھی معبد کدے کے بت کی خوشنودی کے لیے بچی کی قربانی بھی دینا چاہتی ہے۔ شیوانا نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بچی کی قربانی دینا چاہتی ہے تو عورت نے جواب دیا کہ کاہن نے مجھے ہدایت دی ہے کہ میں معبد کے بت کی خوشنودی کی خاطر اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کروں تاکہ میری زندگی کی تمام موجودہ اور آنے والی مشکلات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔ یہ سن کر شیوانا مسکرایا اور عورت سے کہا کہ یہ بچی تمہاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے۔ اسے تم نے کیوں ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اصل میں تمہاری عزیز ترین ہستی تو وہ ہے جو معبد کے پتھر پر بیٹھا ہوا ہے جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی بچی کی جان لینے پر تل گئی ہو۔ یہ بت احمق نہیں ہے، وہ تو تمہاری عزیز ترین ہستی کی قربانی چاہتا ہے۔ تم نے اگر کاہن کے بجائے اپنی بیٹی کو قربان کر دیا تو یہ نہ ہو کہ بت تم سے مزید ناراض ہو جائے اور تمہاری زندگی کو جہنم بنادے۔ یہ سن کر عورت نے فوراً بچی کے ہاتھ پاؤں کھول دیے اور چھری ہاتھ میں مزید مضبوطی سے تھام کر کاہن کی جانب دوڑی جو شیوانا کی بات سن کر پہلے ہی بھاگ چکا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ کاہن اس علاقے میں پھر کبھی نظر نہیں آیا۔

یہ تو ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس کی حقانیت سے بہت سارے لوگ انکار کر سکتے ہیں لیکن اگر غور کریں تو ہمارے گردا گرد نہ جانے کتنے لاکھ بت ہیں اور کتنے ہی لاکھ کاہن۔ ضروری نہیں کہ کاہن کسی مذہبی گروہ ہی کی نمائندگی کرتے ہوں۔ یہ کاہن ہر طرح کے ہو سکتے ہیں۔ یہ قبروں کی مجاوروں کی شکل میں بھی ہو سکتے ہیں، پیر فقیر بھی ہو سکتے ہیں، اساتذہ کا روپ بھی دھار سکتے ہیں، جادوگر کے گروہ سے بھی تعلق ہو سکتا ہے، ’’بنگالی‘‘ بابا بھی کہلا سکتے ہیں، ڈاکٹر بھی ہو سکتے ہیں، حکیمی علاج کے ماہر بھی ہو سکتے ہیں، ان کا تعلق اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہو سکتا ہے اور سیاسی داؤ پیچ رکھنے والوں کا نام بھی اس فہرست میں آ سکتا۔ یہ سب ’’کاہن‘‘ ہوتے ہیں اور اپنی دکان چمکانے کے لیے لوگوں کی جہالت سے جتنا بھی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں کر گزرنے سے کبھی گریز نہیں کرتے۔ جوش ملیح آبادی نے ایسے ہی کاہنوں اور ان پر جان قربان کرنے والوں کے متعلق کیا خوب کہا ہے کہ

عقل کی جن پہ بند ہیں راہیں
وہ بشر ہیں مری چراگاہیں
ہر چراگاہ ان میں اے اللہ
لہلہاتی رہے بعزت و جاہ

کیا پیر یا فقیر، کیا قبر پرست کیا جعلی ڈاکٹر کیا حکیم کیا اسٹیبلشمنٹ کے اہل کار اور کیا ہمارے سیاست دان، سارے کے سارے کاہن ہی تو ہیں جن کا کام کبھی ریاست کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر، کبھی امن و امان کے نام پر، کبھی آئی ایم ایف سے نجات کے نام پر، کبھی غربت کے خاتمے کے نام پر، کبھی کسی کی جھاڑ پھونک کے نام پر اور کبھی اسلام کو خطرے سے نکالنے کے نام پر قوم سے قربانیوں کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور قوم ہے کہ اس نادان عورت کی طرح اپنی ہی بچی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر معبد کے عظیم بت کے قدموں پر قربان کرنے کے لیے محض اس لیے تیار ہو جاتی ہے کہ اس کو موجودہ اور آنے والی مشکلات سے نجات مل جائے۔

یہ سلسلہ گزشتہ 75 برسوں سے جاری ہے۔ غریبوں سے ہر قسم کی قربانیاں مانگی جاتی رہی ہیں اس لیے کہ ملک سے غربت دور کرنی ہے۔ غیرممالک سے قرضہ لیکر ان کو ادا کرنا ہے وغیرہ۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست لیکن کیا کبھی قوم کے کسی بھی ایک فرد نے سوچا کہ قرضہ کیا غریب ہی کو ادا کرنا پڑتا ہے، حکمرانوں کے سارے مشکل فیصلے صرف غریبوں پر مہنگائی اور ٹیکسوں کی صورت میں ہی بم بنا کر کیوں گرائے جاتے ہیں۔ پٹرول اس لیے مہنگا کیا جاتا ہے کہ باہر سے مہنگا آتا ہے۔ جب باہر سے مہنگا آرا ہے تو کھربوں روپوں کا مفت پٹرول اعلیٰ عہدیداروں کو کیوں دیا جاتا ہے۔ جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کے گھروں میں کھربوں کی کرنسی موجود ہے تو کیا اس کا کوئی حساب نہیں لیا جائے گا۔

جب تک وہ کاہن جو معبد کے سب سے اونچے پتھروں پر بیٹھے ہوئے ہیں، چھریاں ان پر نہیں چلائی جائیں گی، عظیم بت کے قدموں میں جب تک ان کا خون نہیں گرایا جائے گا اس وقت تک سب جاہل دیے جائیں اپنی معصوم بچیوں کی قربانی، ان کو کیا تکلیف ہے لہٰذا جو لوگ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی لانی ہے تو وہ خوب اچھی طرح اس بات کو سمجھ لیں کہ اپنی اپنی بچیوں اور بچوں کی رسیاں جب تک کھول کر کاہوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ’’عظیم‘‘ بت کے قدموں میں ان کی گردنوں پر چھریاں نہیں چلائیں گے، خود ان کی اپنی چیخوں کے علاوہ بت کدے میں کسی کی چیخ کبھی نہیں گونجے گی۔