جھوٹے وعدے جھوٹے لوگ، سچے وعدے سچے لوگ

735

کچھ عرصے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق سرکردہ لوگوں کی طرف سے بیانات سامنے آتے رہے ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیے جانے کی باتیں ہوتی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو پر رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد نواب محمود احمد خان کے قتل کا مقدمہ چلا، دوران مقدمہ عدالت میں ایک سماعت کے دوران بھٹو نے ماحول کو جذباتی بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہا کہ اگر انہیں پھانسی دی گئی تو ہمالیہ پہاڑ روئے گا، عدالتی کارروائی اور وعدہ معاف گواہوں کی گواہی نے بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا، نہ ہمالیہ رو سکا اور نہ اس دور کے پیپلز پارٹی کے جیالے بھٹو کی گرفتاری کے موقع پر اور نہ ہی پھانسی پر کوئی موثر یا غیر موثر احتجاج ہی کر سکے، بھٹو نے پاکستانی قوم کو روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا، پنجاب میں تو بھٹو کی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ اگر کھمبے پر بھی پیپلز پارٹی کا ترنگا لگا کر اسے امیدوار بنایا جاتا تو لوگ اس کھمبے کو بھی ووٹوں سے ڈھانک دیتے، (یہ علٰیحدہ بات ہے کہ اس کے بعد المیہ مشرقی پاکستان رونما ہو گیا اور ایک سازش کے نتیجے پاکستان دو لخت ہو گیا اور پیپلزپارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار ہوگئی، اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور بھٹو کے کردار پر گفتگو ایک علٰیحدہ اور تفصیل طلب موضوع ہے)۔
1970میں عوام نے بھٹو کو کاندھے پر سوار کر کے کامیاب کرایا تھا اور کہاں صرف سات سال کے بعد 1977 میں انہی گلی کوچوں اور محلوں میں بھٹو کے خلاف ایک تاریخ ساز تحریک چلی، ظلم اور جبر کی سیاہ اور تاریک رات چھائی ہوئی تھی، بھٹو کے خلاف تحریک میں بہت ساری زندگیوں کے چراغ گل ہوگئے، بہت سارے کنبے اپنے سربراہوں سے محروم کر دیے گئے، لیکن آخر ایسی کیا بات تھی کہ سات سال میں جنہوں نے اپنے کاندھوں پر بھٹو کو اقتدار کی مسند تک پہنچایا تھا انہوں نے انہی کاندھوں سے ذوالفقار علی بھٹو کو اتار پھینکا۔ اگر دیکھا جائے تو اس زمانے میں ایف ایس ایف کے بد نام زمانہ ٹارچر سیل ’’دلائی کیمپ‘‘ میں قید، بھٹو کے خلاف تحریک میں شامل عوام اور سیاستدانوں پر پرسوز مظالم کیے گئے، علماء اور سیاسی لیڈروں کی بے پناہ گرفتاریاں اور ان سے جیلوں میں شرمناک سلوک اور تشدد، سیاسی لیڈروں اور مخالفین پر عجیب و غریب مقدمے جس میں چودھری ظہور الٰہی جیسے نامور سیاستدان پر بھینس کی چوری اور حیدرآباد میں مزدور رہنما پر سرکاری پارک میں ہری گھاس جلانے جیسے جھوٹے اور گھٹیا مقدمات، اپوزیشن کے نمایاں ارکان قومی اسمبلی کو ڈنڈا ڈولی کر کے اسمبلی سے باہر پھنکوانا، بھٹو کا لاڑکانہ میں قومی اسمبلی کے الیکشن میں بلا مقابلہ جیتنے کے شوق میں جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی کا اغوا، ڈاکٹر نذیر شہید کا قتل اور بہت سے ظالمانہ اقدامات جو تنگی صفحہ کی بنا پر یہاں بیان نہیں کیے جا سکتے، ان سب اقدامات نے بھٹو کے خلاف عوام میں ایک نفرت کی فضا پروان چڑھائی اور بھٹو کو عرش سے فرش پر لا چھوڑا۔ آزادی صحافت کا گلا گھونٹا گیا، روزانہ کی بنیاد پر اخبارات کی خبروں کا سنسر کیا جانا، جسارت جیسے اخبار کی بندش، اس حوالے سے پروفیسر غفور احمد مرحوم سے جب بھی پوچھا جاتا تھا کہ جسارت کب نکلے گا تو وہ ایک ہی جواب دیتے تھے کہ بھٹو اور جسارت ساتھ ساتھ نکلیں گے اور قلندر کی کہی ہوئی بات بالکل صحیح ثابت ہوئی اور ایسا ہی ہوا۔
گو کہ بھٹو آج بھی پیپلز پارٹی کے جیالوں کے نعروں میں زندہ ہیں لیکن یہ جیالے نہ کل بتا سکے تھے اور نہ ہی آج بتا سکتے ہیں کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ اور وعدہ کا کیا ہوا؟ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے سیاستدان کیسے کیسے وعدے کرتے ہیں نعرے لگاتے ہیں، وعدے بذات خود تو بڑے خوش کن ہوتے ہیں، لیکن ہمارے سیاستدان بچوں کی طرح سچے نہیں ہوتے، اسی طرح جنرل ضیا الحق 90 دن میں الیکشن کا وعدہ نہ پورا کر پائے اور نہ جنرل مشرف اپنے وعدوں کا پاس رکھ سکے، نعرے خواب دکھاتے ہیں لیکن خواب کی تعبیر تو لیڈروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، جب لیڈر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا جائے اور ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدے وزارت عظمیٰ پر فائز ہو جائے پھر تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے وعدے کو دہرائے بھی اور نبھائے بھی لیکن شومئی قسمت کہ پاکستان کے عوام کا حافظہ شاید اتنا کمزور ہے کہ جیسے ہی ان کے من پسند لیڈر کی حکومت ختم ہوتی ہے تو اگلے الیکشن میں یہ لیڈر پھر سے عوام کی قسمت بدلنے کا نعرہ لے کر آتے ہیں تو نہ تو یہ لیڈر اور نہ ہی ان کی پسندیدہ پارٹی اپنے ووٹروں کے سامنے اپنے گزشتہ دور حکومت کی کارکردگی پیش کرتی ہے اور نہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کیے گئے وعدوں پر باز پرس ہوتی ہے اور نہ ہی ٹی وی چینلوں پر اینکرز، سیاستدانوں سے ان ہی کے کیے گئے وعدوں کے حوالے سے کسی جرأت مندانہ سوال کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور حوصلہ ہو تو کیسے ہو؟، جب آصف علی زرداری جیسے لوگ بر ملا کہیں کہ وعدے کوئی قرآن اور حدیث تو نہیں ہوتے۔
مسلم لیگ (ن) شریف برادران کئی بار اقتدار کی گلیوں میں پڑاؤ ڈالنے والے اپنی پارٹی کے مرکزی رہنما رہے ہیں انہوں نے 2013 کے الیکشن میں کشکول توڑنے کا وعدہ کیا تھا، ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر ملک کی دولت نکالنے کے وعدے کیا تھے، چند اور اعلانات بھی کیے گئے کہ نواز شریف اپنے وزرا کی کارکردگی کے اوپر خود نظر رکھیں گے ان کے کام کو ہر تین ماہ بعد پرکھا جائے گا اور جو بھی اپنی ذمے داریاں صحیح طرح سے ادا نہیں کرے گا اسے سبکدوش کر دیا جائے گا اس کے علاوہ ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے سمیت مسلم لیگ (ن) اپنے ’’آؤ بدلیں پاکستان‘‘ جیسے خوش کن نعرے کا پاس نہ رکھ سکی اور نہ کوئی اقدام کر سکی، ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ ایک مہم اور نعرے کے طور سے ایک اچھا اور مقبول نعرہ تو انہوں نے لگایا، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو نبھا ہو سکے۔
لاہور میں ’’سانحہ ماڈل ٹاؤن‘‘ جیسے دلخراش واقعہ میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی پارٹی کے کئی افراد کو بشمول خواتین بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس کے علاوہ واجپائی کی لاہور آمد کے موقع پر جماعت اسلامی کے سیکڑوں معصوم کارکنان بشمول ضعیف افراد اور جماعت کے صف اول کے قائدین قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور عبدالرشید ترابی جیسے افراد پر جلسہ عام میں ظلم اور درندگی کے پہاڑ توڑے گئے اور اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ اس احتجاج کی پاداش میں قید و بند کی اذیتوں سے بھی گزارا گیا، اس طرح کے اقدامات مسلم لیگ(ن) کے لیے بحیثیت سیاسی پارٹی اور بحیثیت حکمران جماعت وہ کلنک کا ٹیکہ ہے جو تا دم حیات شریف برادران کے لیے بد نامی کا باعث رہے گا۔
(جاری ہے)