بھارت: مسلمانوں پر تشدد اور قتل کے حالیہ واقعات

597

بھارت میں مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ بھارت کے سیکولرازم کے دعووں کی نفی ہے۔ تازہ واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک مسلمان نوجوان کو ہندو انتہا پسندوں نے مندر سے محض ایک کیلا کھانے کے جرم میں سر ِعام قتل کردیا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مندر میں کیلے کو پرساد کے طور پر پیش کیا گیا تھا جو ایک مذہبی تبرک ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ذہنی طور پر معذور ایک 22 سالہ نوجوان مسلمان محمد اسحاق نے انجام سے بے خبر، ایک کیلا اٹھا کر کھا لیا۔ یہ بظاہر ایک معصومانہ عمل تھا، لیکن اس نے ہندو انتہا پسندوں میں نفرت اور سفاکی کو جنون جنم دیا، جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ اسے ہجوم نے بڑی بے رحمی سے نشانہ بنایا۔ اس پر لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں اور دوسرے ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا۔ عینی شاہدین کے بیانات اس نوجوان کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی ہولناک تصویرکشی کرتے ہیں۔ مقتول کے والد نے اپنے غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کو محض کیلے کو چھونے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت نے درندے چھوڑ دیے ہیں جو مسلمانوں کو بہانے بہانے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ مقتول کی بہن نے سفاکی کی انتہا کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اس کے بھائی کے ناخن توڑے گئے، ہندو انتہا پسندوں نے اس کی انگلیوں کو بھی مسخ کردیا، جس سے ناقابل ِ تصور درد اور تکلیف میں اْس نے دم توڑا۔ اہم بات یہ ہے کہ محمد اسحاق ذہنی طور پر معذور فرد، ایک سادہ اور معصوم نوجوان تھا جسے مذہبی تقسیم یا ذات پات کی کوئی سمجھ نہیں تھی۔ اس کی المناک موت پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہے کہ وہ دیکھے کہ بھارت میں کیا ہورہا ہے۔ اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، یہ روز کا معمول ہے۔ کچھ خبریں آجاتی ہیں اور کچھ خبر بھی نہیں بن پاتیں۔ ابھی گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ بھارتی مظالم کا شکار مسلمان باپ بیٹا پناہ کے لیے کراچی پہنچے ہیں۔ 70 سالہ محمد حسنین اور 31 سالہ اسحاق امیر کا تعلق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ہے، انہوں نے حکومت ِ پاکستان سے پناہ کی درخواست کی ہے۔ متاثرہ بھارتی شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں بھارت میں ہندو دہشت گردوں نے کئی دفعہ ظلم کا نشانہ بنایا، پاکستان آنے کی منصوبہ بندی کے تحت نئی دہلی سے 5 ستمبر کو ویزے پر دبئی کا سفر کیا، ابوظہبی سے 7 ستمبر کو افغانستان کا ویزا لیا اور 8 ستمبر کو کابل پہنچے، کابل سے ہوائی سفر کرکے قندھار پہنچے، پھر ٹیکسی سے اسپن بولدک بارڈر پہنچے۔ اسی طرح جولائی میں بھارت کے شمالی صوبے اترپردیش میں ایک مسلمان نوجوان کو اس کے گھر سے باہر نکال کر تشدد کیا گیا اور پھر گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اگست میں جنوبی صوبے کرناٹک میں ایک مسلمان خاتون کو اس کے گھر میں گھس کر اس کے شوہر کے ساتھ قتل کیا گیا۔ بھارت میں ہندو قوم پرستی موجود تھی لیکن مودی حکومت کے بعد سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کا خیال ہے کہ بھارت ایک ہندو ریاست ہے اور مسلمانوں کو اس ملک سے نکال دیا جانا چاہیے۔ دنیا کے سوچنے کے لیے اس میں یہ موجود ہے کہ بھارتی حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور ان کے حقوق سلب کرنے میں ملوث ہے، اس نے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ دیا ہے لیکن مغرب اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے اس پر خاموش نظر آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے وہ تاریخی ہے، محمد اسحاق سمیت مسلمانوں کی المناک موت پر پاکستان سمیت دنیا کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔