نگراں دور گرانی کا دور

816

یوم آزادی کے بعد قائم ہونے والی سندھ کی نگراں حکومت و کابینہ کے ساتھ میڈیا پر بات چلی یا چلائی گئی کہ سابقہ پی پی پی حکومت و قیادت کی پسند کا ایسا کوئی خاص خیال نہیں رکھا گیا اس تاثر کو عام کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جائز اور ناجائز کام کرانے والے ذرا آرام کریں، یوں اس حکومت کے قیام سے قبل ماہرین کو وزیر بنانے اور گمبھیر مسائل کو نمٹانے کا تذکرہ بھی خوب ہوا، مگر اے بسا کہ آرزو خاک شدہ بھولے لوگ ایک مرتبہ پھر وعدوں سے بہلائے گئے۔ باخبر نے جانا کہ بات جوں کی توں ہی رہے گی، نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے لیے سابق جسٹس کا انتخاب کیا تو حسن انتخاب وہ جسٹس ریٹائرڈ ٹھیرے جنہوں نے مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کی سماعت فرمائی تھی اور یہ مقدمہ کسی کو سزا دار ٹھیرانے کے بجائے ہزاروں ان مقدموں کی طرح جو انصاف کے منتظر ہیں رہا اور اب تقریباً 12 سال کے بعد نظریہ ضرورت کے تحت فعال ہوا۔ نگراں وزیراعلیٰ ان کو ہم ملک اور غیر مضمر ہونے کے ناتے کہتے ہیں، پی پی پی کی اعلیٰ قیادت نے قبول کیا آگے چل کر دیکھتے ہیں۔
وزرا میں ماہرین کا انتخاب بھی خوب رہا۔ وزیر بلدیات ان نام ور بلڈر کو بنایا جن کا تعمیرات کی دنیا میں بڑا نام ہے۔ اور یہ وزارت بڑے کام کی ہے اور پی پی پی کی قیادت اس کو اپنے خاص بندے کے ہاتھ میں دینے کی متمنی تھی مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے، یہ کہتے ہیں کہ پوری نہ ہوسکی۔ خیال تھا بلکہ امید تھی کہ بلڈرز کا میدان سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے، سندھ کو یہ نہال کردیں گے، کچھ نہ ہوسکا معدنیات کے نگراں اُن کو بنایا گیا جو اس شعبہ سے وابستہ ہیں یوں ہی خزانہ ریونیو کی نگراں وزارت نیک نام شخص کے حوالے کی جس کا اسکینڈل کی دنیا میں نام نہ تھا، انہوں نے اس نیک نامی کو ادارے میں قائم رکھنے کے لیے (ریونیو) ایک سیکشن آفیسر کا تبادلہ کیا اور سرزنش کی تو وزیراعلیٰ نے ریونیو وزارت کا شعبہ ان کے ہاتھ سے لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ اس افسر کی بحالی کی کہتے ہیں کہ تگڑی سفارش ہائوس سے آئی اور کرنے والے کی بات ٹالی نہیں جاسکتی تھی، سو درمیان کی راہ نکالی گئی، تاکہ عزت وزیر بھی کچھ رہ جائے مگر اس سے تاثر ضرور قائم ہوا کہ ہم گئے ضرور ہیں مگر اب بھی قوت اختیار رکھتے ہیں۔ چرچے تو پرانے ہیں کہ کراچی سے ایک ارب روپے ماہانہ ہائوس کو جاتا ہے سو اب بھی جارہا ہے کون ہے جو اس کو بند کرسکے۔
صورت حال جوں کی توں ہے صرف اقتدار کی صورتیں بدلی ہیں اب کچھ ہی دنوں میں اقتدار کی نگرانی کو چالیس دن ہوجائیں گے جو حکومتی کارکردگی کو پرکھنے اور جانچنے کی معقول مدت ہے۔ بڑی توقعات قائم کرنے والوں کو صدمے بھی بڑے اٹھانے پڑتے ہیں سو وہ حساس طبقے کے لوگ اس چالیسویں کو اپنی خواہشوں کا چہلم قرار دے رہے ہیں اور برملا کہہ رہے ہیں کہ ڈھکوسلے ہیں دعوے جھوٹے فریب ہیں۔ سیاسی مصلحتوں سے جکڑی قوتیں ہیں، ہونا ہوانا کچھ نہیں لو اب آئین کے تحت کہا جارہا ہے کہ چند ماہ بعد صبرو کرو۔ یہ دور نگرانی بھی پورا ہوجائے گا عوام کے ہاتھ سوائے مہنگائی کے کچھ نہ آئے گا، الیکشن کمیشن نے جنوری 2024ء کو بڑے اصرار پر ماہ انتخاب قرار دیا ہے اب راہ فرار کی تلاش بھی ہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔ ایک بات گردش میں ہے جو حیلہ کی ہے کہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور چار ارکان کا عملہ انتخابات کرانے کا ذمے دار ہے اب اگر الیکشن کمیشن سال 2023ء کے آخر میں ناگزیر وجوہات پر مستعفی ہوجاتے ہیں تو پھر انتخاب کون کرائے گا، عوام الناس کو انتخابات سے کوئی غرض نہیں یہ تو سیاست دانوں کے چونچلے ہیں وہ تو ظالموں کو کیفر کردار تک دیکھنا اور مہنگائی سے نجات کے طلب گار ہیں، وہ ہر آنے والے حکمرانوں سے یہ نیک تمنائیں قائم کرتے اور پھر ان کی کارکردگی سے مایوس ہو کر دل مسوس کر رہ جاتے ہیں یہ کب تک ہوتا رہے گا۔ یاد رہے کہ بلی بھی راہ نجات نہ دیکھ کر شیر کی آنکھ نوچ لیتی ہے۔ عوام میں اب جو مقتدر حلقوں کو ذمے دار قرار دے کر جو طوفان اُمڈ رہا ہے وہ اچھی علامت نہیں ہے نگراں دور بھی گراں ثابت ہوا۔