بجلی چوری اور عوام

925

آسمان سے باتیں کرتے بجلی کی بلوں پہ عوام کا واویلا ایک قدرتی عمل تھا۔ جس کا ایک ردِعمل تو یہ ہوا کہ اب روزانہ درجنوں افراد کو بجلی چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا جا رہا ہے۔ تمام فیڈرز کے ایس ڈی او، لائن مین و دیگر کی مبینہ ملی بھگت سے بجلی چوری کی جاتی ہے۔ یعنی یہ چوری ان کے بغیر ممکن نہیں، جس کا خمیازہ عام شہری بھگتتے ہیں۔ بجلی چوروں کے ساتھ واپڈا کے لائن مین سے لے کر ایکسین تک سب کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ عام شہری بجلی چوری نہیں کرتا بلکہ وہ شریف شہری چوری میں ملوث ہیں جو اپنے علاقوں کے خودساختہ ایماندار اور شریف بنے ہوئے ہیں۔ وہ عناصر جو معاشرے کا طاقتور طبقہ ہے جو مبینہ طور واپڈا افسران و ملازمین سے سازباز کر کے دھڑلے سے چوری کرتے ہیں۔ واپڈا ملازمین دیگر محکموں کی طرح خود کروڑ پتی بن گئے دوسری جانب محکمہ روز بروز خسارے میں ہے۔ متعدد واپڈا ملازمین جن کی تنخواہیں چند ہزار روپے ہے لیکن ان کے شاہانہ انداز دیکھنے کے لائق ہیں، کروڑوں روپے لگا کر گھر بنائے جو شاید پوری سروس کی تنخواہ ملا کر بھی نہ بن سکے۔

شہر میں چھوٹے ٹاؤن سب لینڈ ڈویژن جن میں غیرقانونی کنکشن لگے ہیں، عام شہری کو 40 گز تار دینے والے جب تگڑی رشوت لیتے ہیں تو کئی سو گز بنڈل محکمے کے لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹی، ٹاؤنز میں بجلی کی عارضی فراہمی کا دھوکہ دے کر پورا پورا ٹاؤن چلوا دیا جاتا ہے جس کے پیسے عوام دیتے ہیں اسی طرح جہاں کمرشل ہے وہاں گھریلو میٹر لگائے ہیں جہاں انڈسٹریل میٹر اور ٹرانسفارمر لگنا ضروری ہے وہاں کمرشل لگایا ہے عوام کو آگاہی نہ ہونے سبب واپڈا اہلکار خود چوری کے رستے اور بجلی چوری کرواتے ہیں اور لائن لاسز کے نام پر عوام کو بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ بھگتنی پڑ رہی ہے۔ محکمہ اپنے کرپٹ افسران ملازمین کو بچانے کے لیے خود ہی کرپٹ افسران کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا ہے اگر کوئی شہری درخواست دے تو دبا دی جاتی ہے۔

اب تو کرپٹ ملازمین سرعام رشوت مانگتے ہیں۔ اگر احتساب شروع کیا ہے تو واپڈا کے ان کرپٹ افسران ملازمین کا کریں جو اس ساری تباہی کا سبب ہیں جو رشوت نیچے شروع ہو کر افسران بالا تک حصہ پہنچاتے ہیں یا ان کی فرمائشیں پوری کرتے ان کرپٹ افسران ملازمین کیخلاف کارروائی کی جائے۔ان کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے بہت سارے تلخ حقائق سامنے آئیں گے۔ ایک عام میٹر ریڈر سے پیسے لے کر ڈیوٹیاں لگانے والے لائن پر بجلی چوری کروانے والے سب لینڈ ڈویژن چھوٹے ٹاؤنز کو چوری ناجائز طریقے سے میٹر لگوانے والے، ایس ڈی او جسے سب کچھ معلوم اس کے باوجود اپنا حصہ لے کر خاموش ہے، اسی طرح ایکسین سے اوپر تک سب کی رسی ٹائٹ کی جائے اور فیکٹری کارخانوں پر بجلی چلانے والوں تک سب کو پکڑیں۔ جو میٹر ریڈرز اور دیگر ملازمین نے میٹر رکھے ہوئے ہیں جو دھوکہ دینے کے لیے لگائے جاتے ہیں اور مخصوص تاریخ پر اتار کر دوسرے لگادیے جاتے ہیں ماہانہ تین سے 5 ہزار کی رشوت کے عوض محکمہ کو لاکھوں کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ بجلی چور عام شہری ہو، بااثر شخصیات ہوں سب کے خلاف یکساں کارروائی ہونی ضروری ہے۔ان شاء اللہ بجلی چوری 95 فی صد ختم ہو جائے گی۔

پاکستان میں بجلی کی سالانہ چوری بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے اور اس چوری کی وجہ سے جو لوگ بل ادا کرتے ہیں انہیں بجلی مہنگی ملتی ہے۔ یہ بجلی چوری ٹوٹل بلنگ کا 60 فی صد بنتی ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان صرف ان پانچ ڈیسکوز کے اندر 79 ارب یونٹ کی بجلی چوری ہوتی ہے یا تو لوگ بل نہیں دیتے یا بجلی چوری کرتے ہیں جس سے مالی طور پر 1100 ارب روپے اور پشاور، حیدرآباد، سکھر، قبائلی علاقوں اور آزاد کشمیر میں 489 ارب کا نقصان ہوتا ہے۔ مردان اور شکار پور میں سرے عام بجلی چوری ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں صوبائی انتظامیہ نے کبھی اپنی رٹ قائم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بجلی چوری کے عمل کو روکنے کے لیے کسی خاص وقت کا انتظار نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہونا چاہیے، تبھی اس کے تھوڑے بہت فوائد سامنے آئیں گے۔ ایک یا دو ماہ کا کریک ڈاؤن اور اس کے بعد خاموشی مسئلے کا حل نہیں ہو گی۔

پٹرول اور بجلی بھی اس دور میں ہوا اور پانی کی طرح انسانی ضروریات میں شامل ہیں۔ ان کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا گیا ہے کہ قیمتوں کے آسمان کو چھونے والا محاورہ بھی پامال نظر آتا ہے۔ یہ دو ایسی چیزیں ہیں کہ جب ان کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو گویا تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ چوں کہ قیمتوں پرکنٹرول کا بھی کوئی نظام

و انتظام نہیں، اس لیے ہر تاجر قیمتوں میں من چاہا اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے دہاڑی دار طبقہ، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس طبقہ شدید متاثر ہوا ہے۔ دوسری جانب مراعات کی آڑ میں مفت کی بجلی کا چلن عام ہے، خود اشرافیہ جو لاکھوں روپے تنخواہیں لیتی ہے، آخرکیوں بجلی کا بل نہیں دیتی، کیوں پٹرول ان کے لیے مفت ہوتا ہے؟ بجلی کی کمپنیاں تو بجلی کی فراہمی کے مصارف لیں گی۔ دراصل مفت بجلی حکومت کی غیر قانونی مہربانی ہے تو بجلی کی کمپنیاں عوام پر بے جا بوجھ مختلف مد میں ڈال کر اپنی رقم کھری کر لیتی ہیں۔ آئی ایم ایف اس طرف بارہا اشارہ کرچکی ہے کہ مراعات یافتہ لوگوںکی دی گئی مراعات ختم کی جائیں تاکہ عوام کو ریلیف حاصل ہو، ان کی بات پر سنجیدگی سے عمل کرنے کے بجائے نگراں حکومت آئی ایم ایف کے پاس درخواست لے کر چلی گئی کہ ہمیں عوام کو ریلیف دینے کے لیے بجلی کے بلوں پر قسطیں متعین کرنے دیں۔ جن ترقی پزیر ممالک نے آئی ایم ایف سے 1986 تا 2016 کے دوران قرضہ لیا۔ ان ممالک کے عوام بنیادی اصلاحات پر پابندی کے زیر اثر اکثریت میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے جس کے نتیجے میں بیروزگاری اور بنیادی سروسز کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ارباب اقتدار اور پالیسی سازوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا اور اپنی توانائیاں اس بات پر صرف کرنا ہوں گی کہ آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے باہر آنا ہے۔ مہنگی بجلی کے منصوبوں سے کیسے جان چھڑانی ہے، ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کیسے لانا ہے۔