صدر پرویز مشرف نے اقتدار کے بڑھائو کی خاطر باب الاسلام سندھ کی پندرہ سالہ حکومت بطور رشوت پی پی پی کو دے دی۔ سو رشوت دینے والے کی زندگی اور رشوت کے طور پر ملنے والے صوبہ سندھ کی حالت جہنم کدہ ہوگئی۔ پندرہ سالہ دور اقتدار کو اندھیر نگری چوپٹ راج کہنا بھی اس جملہ کی شان سے مطابقت نہیں بلکہ اس کی توہین ہی ہوگا۔ اس راج بھات میں اندھے کی ریوڑیوں کی طرح نوکریوں اور وسائل کی بندر بانٹ ہوئی اور وہی سہاگن کہلائے جس کو پیا چاہے۔ ادارے تباہ ہوگئے مگر ان کے گھر تو دولت کدے ہوگئے۔ بات یہیں تک ہوتی تو بھی گوارا تھی، سیاسی بھریتوں نے بیوروکریسی کو خادم عوام کے بجائے منہ زور اور رشوت خور بنادیا۔ اب معمولی کام بھی بغیر رشوت کی وسولی کے نہیں ہوتا، کلرک جو پہلے شکایت پر بالا افسر سے ڈرتے تھے اب برملا کہتے ہیں کہ جائو صاحب کو شکایت کردو۔ اس رشوت میں میرا کم اور صاحب کا حصہ کہیں زیادہ ہے اور ہوتا بھی یوں ہی ہے آپ نے صاحب کو شکایت کی تو وہ یہ جملہ کہے گا۔ دے دو ان کو حرام کی عادت پڑی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو اس کا اس رشوت میں حصہ ہے تو دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ماتحت ضرور ہے مگر اُس کی سیاسی پشت مضبوط ہے اور وہ سیاسی آقائوں جن کے ہر جائز ناجائز کام میں آتا ہے، انتخابی مہم، جلسے جلوس، میٹنگ وغیرہ کے اخراجات میں اپنا حصہ خوشی خوشی ڈال کر قربت کو اتنی مضبوط بناتا ہے کہ اپنے بالا افسر کا تبادلہ اُس سیاسی بھوتار سے کہہ کر کرادے۔ ایسا ہوا بھی ہے کہ جس نے رشوت میں رکاوٹ ڈالی، اس رکاوٹ کو دور کردیا گیا۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ جو افسر بن کر آیا اس نے اچھی بھلی رقم دے کر کمائی کی پوسٹ حاصل کی، وہ مع منافع اس کو جلد از جلد بٹورنے کے لیے ماتحتوں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے۔ کھال کھینچ لو۔ پی پی پی حکومت سے پہلے پوسٹنگ کا نذرانہ ہوا کرتا ہے، ماہانہ پارٹی کا جرمانہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ اب یہ بھی وصول کیا جارہا ہے۔ پھر اس کے ساتھ بالا افسران کے اللے تللے کے اخراجات بھی اُس کی ذمے داری ہوتے ہیں۔ صاحب دورے پر ہیں تو ان کے شایان شان انتظامات بھی شاباشی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
پی پی پی کی پندرہ سالہ حکومت کا فلسفہ جو ایک انجینئر نے بتایا کہ یہ ہے کہ ہڈی توڑ کر کھائو اور سب کو کھلائو۔ ٹین پرسنٹ کا تذکرہ جو اس حوالے سے بدنام زمانہ ہوا۔ اب سرکتا سرکتا نچلی سطح تک آگیا ہے۔ سیانے جو بتا گئے کہ مچھلی سر سے سڑتی ہے اور پونچھ تک آتی ہے وہ عمل اب پایہ تکمیل تک ان پندرہ سالہ اقتدار میں پہنچ گیا ہے۔ اللہ کا خوف تو ماسوائے چند ایک کہ کسی کو نہ تھا۔ اب نعرہ احتساب کے دور میں پکڑ کا خوف بھی نہ رہا۔ اب نعرہ ان لٹیروں کا یہ ہے کہ ’’لے کے رشوت پھنس گیا ہے‘ دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘۔ سو اس حصہ پتی کا حل یہ نکالا گیا ہے۔ ہر آمدن میں ہر اک کا حصہ مقرر ہے وہ اس کو ایمانداری سے دو اور خوب بے ایمانی کرو۔ تمہیں چھوٹ ہے۔ اس کی روک تھام کے ادارے بھی اپنے حصہ پر خوش ہیں، پکڑ کر وہ کیا کرلیں، ان کا حصہ دوسرے لے لیں گے، سرکاری اداروں میں ہی نہیں تجارتی اداروں میں بھی یہ چلن عام ہوگیا ہے کہ آمدن میں سے چائے پانی دیتے رہو اور خوب ذخیرہ اندوزی کرو، سرکاری نرخ نامہ کو ٹشو پیپر کے طور پر رکھو اور یوں تجارت میں روپے پر روپیہ کمائو، غربا کا لہو چوس لو، جب حرام کے گناہوں میں غرق ہوجائو تو حج عمرہ کرکے گلو خلاصی کرلو، مولوی کو چندہ دے کر دعا کرالو۔ وقت لگا کر گناہ معاف کرالو، یوں پی پی پی کے پندرہ سالہ دور نے جو فارمولا دیا وہ یہ ہے کہ ’’ہڈی توڑ کر کھائو لہو نچور کر پیو‘‘ اس فلسفے نے تمام ترقیاتی کاموں، فنڈز میں وہ لوٹ مچائی کہ توبہ بھلی ہے اور عوام الناس کی حالت ایسی کردی ہے کہ وقت کی آندھی پوچھ رہی ہے کہ کیا اب بھی ہمت باقی ہے۔ مقتدر حلقے ایک مرتبہ پھر سندھ کی حکمران پی پی پی کو دینے کا سوچ رہے ہیں، ایک پیش گوئی ہے کہ سندھ قیامت سے 40 سال پہلے تباہ ہوگا، کیا اس کی تیاری ہے؟ چھوٹ ہے جو مرضی میں آئے کرو۔