کمسن بچوں کے اغوا اور پراسرار لاپتا ہونے کے واقعات ميں خطرناک اضافہ

1037

کراچی(رپورٹ: منیرعقیل انصاری) دنیا بھر میں کم سن بچوں کا اغوا ایک سنگین مسئلہ ہے اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں آج بھی پیدائش کے پہلے دن سے لے کر سات سال کی عمر کو پہنچنے تک کے بچوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بچے کراچی کے مختلف علاقوں، اسپتالوں اور گلی محلوں سے اغوا ہوتے ہیں اور اغوا کاروں کے لیے یہ مقامات انتہائی آسان ذریعہ ہوتے ہیں۔

کراچی میں بچوں کے اغوا اور پراسرار لاپتا ہونے کے واقعات ميں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔ رواں سال اب تک 900 بچے لاپتا ہوئے۔ اگست میں سب سے زیادہ 155 بچے اغوا یا لاپتا ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق کراچی میں رواں سال کے 9 ماہ کے دوران 900 سے زیادہ بچے لاپتا ہوئے ہیں، جس میں 200 بچے اور 50 سے زاید بچیاں شامل ہیں۔ لاپتا بچوں میں 640 سے زاید بچوں کو ریکور کیا گیا ہے جبکہ 250 سے زاید بچوں کے والدین اب بھی اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں ہیں۔ اگست میں سب سے زیادہ 155 بچے اغوا اور لاپتا ہوئے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ضلع شرقی سے سب سے زیادہ بچے لاپتا رپورٹ ہوئے۔ جنوری ميں 98، فروری ميں 112، مارچ میں 85، اپریل میں 48، مئی میں 91، جون میں 132، جولائی میں 119، اگست میں 155 اور ستمبر میں 60 سے زاید بچے اغواء اور لاپتا ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق لاپتا ہونے کے واقعات گلشن اقبال، بلديہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، محمود آباد، نمائش، ماڑی پور، کورنگی اور گلستان جوہر کے علاقوں ميں رونما ہوئے ہیں۔

انسانی اسمگلنگ اور اغوا کے شکار ہونے والوں میں ہر 10 بچوں میں سے 4 ایسے ہوتے ہیں جو اپنے والدین کو واپس نہیں ملتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (SPARC)کی آسیہ عارف سے بات کی جو گزشتہ 10 برس سے اس موضوع پر تحقیق کر رہی ہیں اور ایسے متاثرہ بچوں کو اپنے والدین تک پہنچا رہی ہیں۔

آسیہ عارف کے مطابق 7 سال کی عمر تک کے اکثر بچوں کو اغوا کرنے کے مقاصد بے شمار ہیں لیکن ان میں سے کچھ بنیادی ہیں۔ جیسا کہ اغوا کار اس عمر کے بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس عمر کے بچے اپنی موجودہ شناخت بھولنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے اور پھر باآسانی ان کو چائلڈ لیبر اور جنسی استحصال کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ جن گروہوں کے پاس یہ بچے ہوتے ہیں، وہاں بچہ کچھ سال بعد یہی سمجھتا ہے کہ یہی اس کے گھر اور خاندان والے ہیں اور ان بچوں سے بات منوانے میں اغوا کار گروہوں کو آسانی ہوتی ہے۔

کراچی میں بچوں کے حقوق اور لاپتا ہونے کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم مددگار نیشنل ہیلپ لائن تنظیم کے سربراہ اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم ضیا اعوان نے بتایا کہ ‘بچوں کے اغوا، انسانی اسمگلنگ اور جبری مزدوری جیسے مسائل پاکستان میں بہت زیادہ ہیں۔ یہ بہت ہی سنگین صورت حال ہے۔ مختلف قسم کے مافیاز ہیں جہاں بچے جاتے ہیں۔ مگر ان بچوں کا پتا کرنے اور ان کو تلاش کرنے کا ایسا کوئی نظام یہاں موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ان چیزوں کو دیکھیں مگر اب تک ایسا کوئی نظام نہیں بنایا جا سکا ہے۔

مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے مطابق بچوں کی گمشدگی کے واقعات کا معاملہ کراچی میں کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ واقعات صرف صوبہ سندھ تک محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان میں بچوں کی گمشدگی کے واقعات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

کراچی میں گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی ایک اور غیر سرکاری تنظیم ‘روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ پولیس لاپتا بچوں کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس ملک میں اگر بچوں کا جنسی و جسمانی استحصال روکنا ہے، ان کی اسمگلنگ کی روک تھام کرنی ہے تو بچوں کی گمشدگی کا سدباب ہونا چاہیے اور اس کی فوری طور پر تفتیش ہونی چاہیے۔

واضح رہے کہ روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھی بچوں کی گمشدگی پر ایک آئینی درخواست زیر سماعت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف رواں سال 30 لاپتا بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔

روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کراچی کے کم آمدنی والے علاقوں سے لاپتا ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لانڈھی اور کورنگی زیادہ ہائی الرٹ علاقے ہیں۔

تنظیم کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ اگر نومولود سے لے کر 4 سال کا بچہ گمشدہ ہے تو وہ گروپ انہیں اٹھانے میں ملوث ہو رہے ہیں جو بچوں سے گداگری کراتے ہیں یا پھر بے اولاد جوڑوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اگر 5 سے 10 سال کی عمر کا بچہ لاپتا ہے تو اس کو گداگری میں ملوث گروپ لے جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے خاندانی مسائل ہوں یعنی والدین میں سے کوئی ایک سوتیلا ہو یا والدین میں علیحدگی ہو رہی ہو۔ بچے اس وجہ سے بھی غائب ہو جاتے ہیں جو بعد میں مل بھی جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لاپتا کی تشریح سیدھی سی ہے یعنی جو بھی 18 سال سے کم عمر ہے وہ بچہ ہے اور ان میں سے جو بھی گھنٹوں، دنوں یا مہینوں سے اپنے والدین سے رابطے میں نہیں، وہ لاپتا ہے۔ اب اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ کسی ندی نالے میں گر سکتا ہے، اس کو کوئی ورغلا کر لے جا سکتا ہے، بھکاری مافیا اغوا کر سکتا ہے، جنسی زیادتی کی نیت سے لے جایا جا سکتا ہے، تاوان کے لیے اغوا ہو سکتا ہے اور اس کی اسمگلنگ بھی کی جا سکتی ہے۔

سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے سابق چیئرپرسن محمد ساجد جوکھیو کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کسی حد تک درست ہیں۔ صوبہ سندھ کے پاس کمزور تحقیقاتی ٹیم اور جدید آلات کا نہ ہونا افسوس ناک امر ہے۔ ہم نے گزشتہ برس وزیر اعلیٰ سندھ کو بتایا تھا کہ صوبے میں کمسن بچوں کے اغوا کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے جس پر صوبائی حکومت نے اس کے لیے اقدامات کیے جو یقیناً ناکافی تھے۔ تاہم پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت کارروائی کی وجہ سے کسی حد تک واقعات کنٹرول ہوئے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس باقاعدہ اس کے لیے منسٹری موجود ہے چونکہ قوانین پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے اور کم وسائل کے باعث وہ اپنی ذمے داری ٹھیک سے پوری نہیں کر پاتے۔ کمسن بچوں کے اغوا کے حوالے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کے ذریعے سے ہی ہم اس اہم اور بڑے مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں۔