میگا کرپشن معاشرتی ناسور

826

اے ابن آدم آج جو ہمارے ملک میں تباہی نظر آتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن اور اُس کے ساتھ اشرافیہ کی غیر ضروری مراعات ہے۔ میاں شہباز شریف نے حکومت ملتے ہی سب سے پہلے ایک بل پاس کروایا تھا کہ 50 کروڑ تک کی کرپشن اُن کی نظر میں کرپشن ہی نہیں تھی۔ اُس سے اُوپر کی کرپشن کرنے والوں کو بھی عزت سے نیب کو بلانے کے احکامات جاری کیے، اپنے اور فیملی کے تمام کیس ختم کرواکر عزت داری کا طوق گلے میں ڈال کر نکل گئے مگر سابق چیف جسٹس عمر بندیال نے جاتے جاتے ایک اچھا کام کردیا اور نیب کا وہ ترمیمی بل جو پی ڈی ایم کی حکومت نے منظور کیا تھا اُس کو ختم کردیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر قومی احتساب بیورو متحرک ہوچکی ہے۔ نیب کے مشاورتی اجلاس میں عدالتی حکم پر من و عن عمل کرنے اور دو تین روز میں میگا کرپشن کیسز کا تمام ریکارڈ احتساب عدالتوں کو بھیجنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری، اُن کی بہن فریال تالپور، نواز شریف، شہباز شریف، شاہد خاقان، پرویز اشرف عرف راجا رینٹل، یوسف رضا گیلانی، مراد علی شاہ، اسحاق ڈار سمیت سابق وفاقی و صوبائی وزرا سمیت دیگر سیاست دان دوبارہ نیب کے شکنجے میں واپس آگئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ نیب بند کیے گئے مقدمات اور ریفرنسوں کا قانونی جائزہ لے کر ریکارڈ مرتب کررہی ہے۔ اللہ کرے وہ وقت آجائے کہ یہ سب چور جو ملک اور اداروں کو لوٹ کر کھا گئے ان سے ملک و قوم کی ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے اور کرپشن ثابت ہونے پر اُن کو ایسی سزا دی جائے کہ کوئی کرپشن کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔

دراصل ہمارے ملک کی باگ ڈور آج بھی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے اسی وجہ سے ہمارے ملک میں کرپشن کی کوئی بڑی سزا نہیں ہے، جبکہ دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی کرپشن کی سزا موت ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک میں انصاف آزاد نہیں ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ہر بڑا مجرم باآسانی کیسوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کرپشن میں مبتلا ہے، سوائے جماعت اسلامی کے یہ ملک کی واحد سیاسی و مذہبی جماعت ہے جس میں کرپشن کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کراچی کا ووٹ بینک جس جماعت کے پاس تھا اس کو متحدہ قومی موومنٹ کہتے ہیں۔ آج ان کے تمام لیڈرز ارب پتی بن چکے ہیں جتنا مال متحدہ والوں نے بنایا ہے وہ عوام کی سوچ سے بالاتر ہے۔ آج بھی یہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ 35 ناموں کی ایک لسٹ سوشل میڈیا پر چل رہی ہے، ان ناموں کو دیکھ لیں سب کے سب کرپٹ لوگ ہیں۔ نیب متحدہ کے اُن 35 لیڈران پر بھی ہاتھ ڈالے جن کے نام سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں۔ ہماری آج کی خراب معاشی سیاسی، سماجی تباہی کی تمام ذمے داری 3 بڑے سیاست دانوں میاں نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ چند کرپٹ فوجی جرنیلوں اور نظریہ ضرورت پر عمل پیرا جج، بیوروکریسی اور ملک کے بڑے کاروباری اس عمل میں آلہ کار ہیں۔ رکن قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلی یا مشیر ہو سب کے فرنٹ مین موجود ہوتے ہیں۔ کراچی کا اربوں روپے کا بجٹ باپ کا مال سمجھ کر کھایا گیا، ہر سرکاری ٹھیکے پر بھاری کمیشن وصول کیا گیا، کبھی تو پورا بجٹ ہضم کرلیا گیا بس صرف کاغذی کارروائی ہوئی مال آپس میں تقسیم کرلیا گیا۔ پیپلز پارٹی سندھ حکومت نے تو کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ کر رکھ دیے۔ کراچی نے حافظ نعیم نعیم الرحمن کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ کراچی والے جانتے تھے کہ حافظ نعیم الرحمن ایک بہادر اور ایماندار لیڈر ہے مگر پیپلز پارٹی نے جوڑ توڑ کرکے کراچی کی میئر شپ حاصل کرلی۔ خیر اُن کا کیس عدالت میں چل رہا ہے، اللہ کرے انصاف آزاد ہو کر آزاد فیصلہ دے تو حق دار کو اُس کا حق واپس مل سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس وقت بندیال صاحب کو ریٹائرڈ ہونے پر کیا کیا مراعات ملنی ہے کی تفصیلات بیان کی جارہی ہے۔ دس لاکھ ماہانہ پنشن، 3000 فری فون کال، 2000 یونٹ بجلی مفت، 300 لیٹر پٹرول، پانی کی مفت فراہمی، مفت طبی سہولت، فیملی سمیت 8 گھنٹے کی شفٹ کے لیے پولیس گارڈ، ڈرائیور، کم قیمت پر سرکاری گاڑی، ان کی پنشن میں انکم ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ ان مراعات اور پنشن کے علاوہ ججوں کو ان کے ڈرائیور کی ماہانہ تنخواہ، اضافی، خصوصی پنشن اور اس کے علاوہ طبی الائونس بھی ملتے ہیں۔ یہ ایک بندیال صاحب نہیں سب کو یہ مراعات حاصل ہیں۔ فوج کے ریٹائرڈ جنرلوں، بیوروکریسی کے بڑے افسران کو بھی بے شمار مراعات حاصل ہیں، جبکہ ایک غریب مزدور کی EOBI اب جا کر 10 ہزار روپے ماہانہ ہوئی ہے۔ یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے۔ ابن آدم کہتا ہے کہ ایک غریب کی کم از کم ماہانہ اجرت 60 ہزار اور اس کی پنشن 50 ہزار ہونی چاہیے مگر ہمارے ملک کا جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام تو مزدور کا خون چوسنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ آپ فیکٹریوں میں جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، وہاں کام کرنے والوں کو کتنی اجرت مل رہی ہے، 10 سے 20 ہزار تک اور 10 گھنٹے کام لینے کے بعد جب ملک میں غریب کا یہ حال ہو تو غریب خودکشی نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔

ڈاکٹر عاصم حسین ایک مراعات یافتہ ہستی ہیں، الطاف حسین اور زرداری صاحب کی دوستی وجہ شہرت بنی، ان پر 477 ارب روپے کی کرپشن کا کیس موجود ہے مگر ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ ان کی دوسری بیگم مقامی یونیورسٹی کی وی سی بنی ہیں ان کی ماہانہ تنخواہ 15 لاکھ اور دیگر مراعات الگ ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مہربانی ہے جو ہو وہ کم ہے ابھی سندھ حکومت کا ایک اور بڑا کرپشن سامنے آیا ہے، 15 سال میں چھوٹے ڈیم بنانے کے نام پر اربوں روپے جاری ہوچکے ہیں، سندھ کا محکمہ آبپاشی کرپشن کا پرانا بادشاہ ہے اگر اس کے افسران کی انکوائری کی جائے تو ہر افسر کروڑ پتی سے کم نہیں ہوگا۔ چھوٹے ڈیم کے نام پر اربوں روپے جاری ہوئے جن کا نہ کوئی آڈٹ ہوا اور نہ کوئی تحقیقات کی گئیں کہ یہ پیسے کہاں خرچ ہوئے، میری اطلاع کے مطابق سندھ میں کوئی چھوٹا ڈیم بنا ہی نہیں ہے۔ چھوٹے ڈیموں کا وجود کہا ہے اور کہ کیا نام ہیں کچھ نہیں پتا۔ ایک اور اہم ایشو ہے EOBI کا جس محکمے کو زرداری صاحب نے اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے پیپلز پارٹی نے اس کو بنایا اور پیپلز پارٹی نے ہی تباہ کیا۔ بھٹو صاحب نے یہ ادارہ بنایا اور ان کے داماد جی نے اس اہم ادارے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی۔ 2008، 2013 اس محکمے میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی بھرتی کی گئی۔ سابق وزیر خورشید شاہ اور چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے 400 سفارشی جیالوں کی غیر قانونی بھرتی کی، بھرتی شدہ افسران زائد العمر، تعلیمی قابلیت سے کم تھے ان میں 82 جیالوں کا تعلق ظفر اقبال گوندل کے آبائی علاقے سے اور 41 جیالے خورشید شاہ کے حلقہ انتخاب سکھر سے تھا۔ اس کے علاوہ 35 ارب کے میگا لینڈ اسکینڈل بھی ظفر اقبال گوندل کا کارنامہ ہے۔ راجا پرویز اشرف کا ایک داماد راجا عظیم الحق منہاس ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے کلیدی عہدہ پر بھرتی کیا گیا یہ تمام ریکارڈ اسرار ایوبی سابق افسر تعلقات عامہ EOBI نے میڈیا کو فراہم کرکے کرپشن کو بے نقاب کیا۔ ابن آدم اسرار ایوبی کی جرأت کو سلام پیش کرتا ہے۔ اب کام کرنا ہے عدلیہ نے۔

آخر میں سوشل میڈیا کی ایک خوب صورت بات۔ میں اس قوم کو جانتا ہوں جہاں بڑا اسمگلر ہمیشہ حاجی صاحب کہلاتا ہے۔ جہاں گھر پر لکھا ہوتا ہے ہذا من فضل ربی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خبردار مجھ سے مت پوچھنا یہ گھر کیسے بنایا۔ میں اک قوم کو جانتا ہوں جہاں مجرم کا دفاع استغاثہ کا وکیل کرتا ہے، میں اک قوم کو جانتا ہوں جہاں نمبر 1 ہونے کے لیے نمبر 2 ہونا ضروری ہے۔ جہاں موروثیت کو جمہوریت گردانتی ہے، جہاں حق رائے دہی قورمہ، نان اور بریانی کے ڈبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جہاں اربوں روپے ہڑپ کرجانے والے ایک دھیلے کی کرپشن نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں، جہاں راشی کے ماتھے پر محراب ہوتا ہے، جہاں حرام نہ کھانے والے کو کمزور اور بے قوف گردانا جاتا ہے، جہاں بدمعاش اور شریف کہتے ہیں۔ جہاں جھوٹ بولنے والا مشہور ہو کر صحافی کہلاتا ہے، جہاں غیرت کے نام پر جانیں لے لیتے ہیں مگر دو دو ٹکے کے لیے اپنا ضمیر اور مٹی کا سودا کردیتے ہیں۔ میں اس قوم کا فرد ہوں جس کو اپنے گناہ صرف تب یاد آتے ہیں جب زمین لرزتی اور آسمان کپکپاتا ہے۔