انڈیا کینیڈا تلخی: امریکا، یورپ بھارت کے ساتھ؟

869

امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے برسوں کی کوششوں کے بعد بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے مقابلے میں امریکا، یورپ، بھارت متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب و اسرائیل سے مغربی اور مشرقی یورپ تک ایک روڈ کا منصوبہ بنایا ہے جس کی منظوری جی 20 ممالک کے اجلاس میں ہوئی۔ اس منصوبے کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہ چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، ناممکن نہیں تو کم ازکم مشکل ضرور ہو جائے گا اور اب بھارت دنیا کا ایک بہت بڑا تجارتی مرکز بنے کی تیاری کر رہا ہے۔ لیکن انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تنازع دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی رواں ہفتے اس وقت کافی بڑھ گئی جب کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے مغربی کینیڈا میں جون کے مہینے میں ایک سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا۔ اس کے فوری بعد جب سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل کے معاملے پر کینیڈا اور بھارت میں تنازع شدت اختیار گیا۔ اب اطلاع آئی ہے کہ کینیڈا میں مقیم خالصتان تحریک کے ایک اور سکھ رہنما سکھدول سنگھ عرف سکھا ڈونیکے کو کینیڈا کے شہر ونی پگ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے، بھارت نے کینیڈا کے شہریوں کے لیے ویزہ سروس معطل کر دی، جس کا اطلاق فوری ہو گا، کینیڈا نے سوشل میڈیا پر انتہا پسند ہندؤں کی جانب سے سفارتی اسٹاف کو ملنے والی دھمکیوں کے بعد بھارت میں اپنے سفارتی عملے کی تعداد میں کمی کرنے کا اعلان کردیا ہے، انڈیا نے کینیڈا پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کردیا ہے۔

اس بات سے انکار نہیں ہے کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور چین سے انڈیا کے ٹکراؤ کے پیش نظر امریکا، برطانیہ اور دیگر اہم مغربی ممالک کینیڈا کا ساتھ دیں گے؟ اب تک اطلاع کے مطابق بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مغربی ممالک کے وزراء اور حکام اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ کینیڈا اور انڈیا کے درمیان سفارتی تنازع دوسرے ممالک کے بین الاقوامی تعلقات کو خراب نہ کرے۔ کینیڈا کے وزیراعظم نے جی 20 اجلاس کے دوران بھی خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے واقعے میں انڈیا کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کینیڈا میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ پون کمار کو ملک بدر کیا تو انڈین حکومت نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انڈیا سے کینیڈا کے ایک سینئر سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا کہا۔ امریکا اور دیگر مغربی طاقتیں ایسی کوئی صورتحال پیدا نہیں کرنا نہیں چاہیں گی جو انہیں بھارت سے علٰیحدہ کر دے۔ انڈیا نہ صرف ایک بڑھتی ہوئی طاقت ہے بلکہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت۔ اس کے ساتھ ہی مغربی ممالک اسے چین کے خلاف ممکنہ بندھ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ جی 20 ممالک کے حالیہ سربراہ اجلاس میں انڈیا کی اہمیت کو مزیدبڑھا دیا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے مشترکہ بیان پر کسی قسم کے تنازعے سے گریز کرتے ہوئے انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بچانے کا انتخاب کیا۔

مغربی سفارت کاروں میں دوسرا خوف یہ ہوگا کہ کینیڈا انڈیا تنازعے میں کہیں دوسرے ممالک ایک دوسرے کے حلیف نہ بننے لگیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی رواں ہفتے اس وقت کافی بڑھ گئی جب کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے مغربی کینیڈا میں جون کے مہینے میں ایک سکھ رہنما کے قتل کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا۔ حالیہ مہینوں میں انڈیا خود کو ترقی پزیر ممالک کے رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے ’گلوبل ساؤتھ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی ممالک نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکا اور بعض یورپی ممالک ان ممالک کو منانے کی حقیقی سفارتی کوششیں کر رہے ہیں اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگ اور ان کی معیشت دونوں ہی اہمیت رکھتی ہے۔

امریکا اور مغربی ممالک پر چین کی جانب سے ایک مرتبہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ عالمی معیشت کی بحالی اور پائیدار ترقی میں مدد کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی اعلیٰ معیار کی تعمیر کو آگے بڑھانے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔ آج سے 10 سال قبل اپنی شروعات کے بعد سے بی آر آئی نے شراکت دار ممالک کے لیے چار لاکھ سے زائد ملازمتیں پیدا کی ہیں اور تقریباً 40 ملین لوگوں کو غربت سے باہر نکالا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بی آر آئی کی مشترکہ تعمیر سے شریک ممالک کی تجارت میں 2.7 سے 9.7 فی صد، عالمی تجارت میں 1.7 سے 6.2 فی صد اور عالمی آمدنی میں 0.7 سے 2.9 فی صد اضافہ ہوگا۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی عالمی پزیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے 150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد عالمی تنظیمیں اس میں فعال انداز حصہ لے رہی ہیں جو عالمی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے نقطہ نظر کی حقیقی کامیابی ہے۔ بی آر آئی میں شریک ممالک دنیا کی آبادی کا تقریباً 75 فی صد ہیں اور یہ تمام شراکت دار چین کے زبردست ترقیاتی تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج چین دنیا کی مینوفیکچرنگ سپر پاور بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے شماریات ڈویژن کی شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2019 میں چین کا عالمی مینوفیکچرنگ پیداوار میں شیئر 28.7 فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ یہ امریکا، جاپان اور جرمنی کی مشترکہ مینوفیکچرنگ پیداوار کے تقریباً مساوی ہے۔ بی آر آئی کے تحت ٹھوس بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ترقی پزیر ممالک میں چین کی مقبولیت کا اہم سبب رہا ہے۔ چین کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ پانی کے منصوبوں، برقی بجلی گھروں اور جدید نقل و حمل کے نظام، بشمول تیز رفتار ٹرینوں اور رابطے کے لیے جدید سڑکوں میں سرمایہ کاری کے بغیر، عالمی سطح پر غربت کا خاتمہ ناممکن ہے۔ اسی تصور کی روشنی میں چین نے ترقی پزیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کو اولیت دی ہے۔

بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کو ہردیپ سنگھ کم از کم چار جھوٹے مقدمات میں مطلوب تھے ان پر شدت پسندی اور ہندو پنڈت کے قتل کے لیے سازش کرنے کے علاوہ علٰیحدگی پسند سکھس فار جسٹس (ایس ایف جے) تحریک چلانے اور دہشت گردی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے الزامات تھے۔ واضح رہے بھارت میں سکھوں کی خالصتان تحریک کی حامی شاخ سے منسلک رہنے والے عہدیدار ہردیپ سنگھ نجار کو رواں سال 18 جون میں برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب وہ گوردوارے کے اندر موجود تھے۔ ہردیپ سنگھ خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ رہے تھے۔ ان پر شدت پسندی اور ہندو پنڈت کے قتل کے لیے سازش کرنے کے علاوہ علٰیحدگی پسند سکھس فار جسٹس (ایس ایف جے) تحریک چلانے اور دہشت گردی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے الزامات تھے۔

انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی جب جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سکھ علٰیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کْھل کر ناراضی کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے دوران سرکاری سلامی کے دوران ٹروڈو کو نریندر مودی سے جلد بازی میں مصافحہ کرتے اور تیزی سے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ تصویر دونوں ملکوں کے تعلقات میں ’کشیدگی‘ کو واضع کر رہی ہے۔ اس کے بعد ٹروڈو سے بات چیت کے دوران نریندر مودی کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی عناصر اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا گیا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ نریندر مودی اس موقع پر ٹروڈو سے کافی ناراض تھے۔ انہوں نے کہا کہ خالصتان کے حامی عناصر انڈین سفارت کاروں پر حملوں کے لیے لوگوں کو اْکسا رہے ہیں جبکہ کینیڈا انہیں روکنے میں ناکام ہے۔ مودی کا کہنا تھا کہ کینیڈا تشدد کو روکنے اور نفرت کو کم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے لیکن بھارت کے لیے کینیڈا کی پالیسی تبدیل کیوں ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں تلخی پر امریکا اور یورپ مکمل طور سے بھارت کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔