پاکستان مملکت خداداد ہے مگر یہاں خدا کے قانون کے بجائے انگریز کا قانون نافذ العمل ہے، کہتے ہیں قیام پاکستان کا مقصد اسلامی نظام کی سربلندی اور اسلام کی سرفرازی تھا، مگر قیام پاکستان کے بعد ایسے حکمران آئے جو اسلام سے دور تھے، یہی وجہ تھی کہ تحریک پاکستان کے دوران بعض اسلامی جماعتوں نے قیام پاکستان پر اعتراضات کیے تھے، ان کا کہنا تھا کہ مذہبی آزادی تو اب بھی حاصل ہے مگر اسلامی معاشرہ نہیں ہے ہمیں ایک ایسے قطعہ اراضی کی ضرورت ہے کہ جہاں اسلامی معاشرہ اپنی پوری آن بان اور شان سے قائم ہو، اگر ہم دیانتداری سے سوچیں تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ قیام پاکستان کے بعد اسلامی نظام نافذ کیوں نہ ہوسکا، اس معاملے میں کوئی کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت نہیں، تحریک پاکستان کے رہنما بنیادی طور پر اسلامی احکامات پر عمل پیرا نہیں تھے، وہ اسلامی معاشرہ قائم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے، کیونکہ کسی ملک میں اسلامی آئین کے نافذ ہونے کے لیے یہ عمل بہت ضروری ہے کہ وہاں اسلامی معاشرہ، عوام کا رہن سہن اور ان کی معاشیات اور سماجیات قرآن و سنت کے تابع فرمان ہوں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی معاشرہ تب ہی قائم ہو سکتا ہے جب اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ مسلمان ہونے کے ناتے ہم اسلامی نظام کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے عملاً تو کجا زبانی بھی کوئی بات نہیں کرتے، اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے معاشرت، معیشت اور تہذیب و تمدن کا اسلامی معاشرے کا عکاس ہونا ضروری ہے، یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ہم لوگ مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں، اور مسجد سے جوتے چرانے کے مرتکب بھی ہوتے ہیں، بلب اور مقدس کتابیں بھی چوری کر لیتے ہیں، سو ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اسلامی معاشرہ قائم کیا جائے۔
کہتے ہیں کہ مسلمان ہر برائی میں مبتلا ہو سکتا ہے مگر جھوٹ نہیں بول سکتا، المیہ یہی ہے کہ وطن عزیز میں جھوٹ پیشہ بن گیا ہے، شاید ہی دنیا میں کوئی ایسی قوم ہو جو چند ٹکوں کے عوض جھوٹ بولتی ہو، عدالتوں میں گواہی کے لیے پیش ہونے والے اکثر گواہ زر خرید ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ وکلا ایسے افراد سے رابطے میں رہتے ہیں جو ان کا رٹایا ہوا سبق عدالت میں بڑی روانی سے بولتے ہیں، المیہ یہ بھی ہے کہ جج صاحبان کو علم ہوتا ہے کہ گواہ جھوٹا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے ایک جج صاحب سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ عدالتی فیصلہ ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے، یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ جج کو علم ہوتا ہے کہ شہادتیں اور گواہ جھوٹے ہیں اس کے باوجود اس کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا جاتا ہے، کسی یورپی ملک کا قصہ ہے کہ قتل کے ایک مقدمہ میں جج نے اپنے بیٹے کو سزا سنانے کے بعد استعفا دے دیا تھا، جب مستعفی ہونے کی وجہ دریافت کی گئی تو جج نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ واردات کے روز اس کا بیٹا اس کے پاس تھا لیکن شہادتوں اور گواہوں کے مطابق وہ موقع واردات پر موجود تھا، اس ضمن میں اپنے بیٹے کی بے گناہی کا گواہ ہونے کے باوجود میں اسے سزا سنانے پر مجبور ہو گیا۔
کچھ لوگ گرمیوں میں ٹھنڈے پانی کا اہتمام کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ اہتمام بھی کرتے ہیں کہ گلاس چوری نہ ہوں سو زنجیر سے باندھ دیتے ہیں، اب تو تنگ دستی اس حد تک آن پہنچی ہے کہ قبروں پر لگے کتبے چرانے میں بھی کوئی آر محسوس نہیں کرتا، جس ملک میں پانی کا گلاس، مسجد سے جوتے، بلب اور قبرستان سے کتبے چوری ہوتے ہوں وہاں اسلامی نظام کیسے آئے گا، سو یہ بات طے ہے کہ اسلامی نظام لانے سے پہلے اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہو گا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب لوگ غریبوں کی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے سرگرم ہوں یہ کام مخیر حضرات اور جماعت اسلامی کررہی ہے، اگر اس معاملے میں سیاسی جماعتیں بھی آگے بڑھیں تو اسلامی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔